Maktaba Wahhabi

46 - 645
ہے۔ یہ بات بیان کی جا چکی ہے کہ امر میں شرط قدرت فعل سے قبل عاصی اور مطیع دونوں میں ہوتی ہے۔ البتہ مع الامر یہ صرف مطیع میں ہوتی ہے۔ بخلاف مطیع کے مختص کے۔ کہ وہ صرف عل کے ساتھ پائی جاتی ہے۔ ہم بیان کر چکے ہیں کہ جس نے قدرت کو ایک ہی نوع قرار دیا ہے، جو یا تو فعل کے مقارن ہوگی یا فعل پر سابق ہوگی اس نے خطا کی ہے۔ یہ اس وقت ہے جب دو میں سے ایک نوع سے مراد فعل کو مستلزم امر کا مجموعہ ہو۔ جیسا کہ اکثر اہل کلام کی اصطلاح میں ہے۔ قدرت سے صرف مصحح ہی مراد ہو تو تب یہ قدرت ایک ہی نوع ٹھہرے گی۔ کیونکہ قدرت کی بابت کہ آیا وہ فعل کے ساتھ ہوتی ہے یا اس سے قبل؟ لوگوں کے متعدد اقوال ہیں : (۱)....ایک یہ کہ قدرت صرف فعل کے ساتھ ہوگی۔ اس کا مبنی یہ امر ہے کہ قدرت فعل کو مستلزم ہے، اور وہ فعل کے ساتھ ہی ہوگی۔ پھر ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ قدرت عرض ہے اور عرض دو زمانوں میں باقی نہیں رہتا۔ (۲)....دوسرا یہ کہ قدرت صرف فعل سے قبل ہوتی ہے۔ اس قول کا مبنی یہ ہے کہ قدرت صرف مصحح ہے، اور وہ فعل کے مقارن نہیں ہوتی۔ (۳)....تیسرا یہ کہ قدرت فعل سے قبل اور فعل کے ساتھ دونوں میں ہوتی ہے، اور یہ اصح قول ہے۔ پھر ان میں سے کوئی یہ کہتا ہے کہ قدرت کی دو انواع ہیں : مصححہ اور مستلزمہ۔ مصححہ فعل سے قبل ہوتی ہے اور مستلزمہ فعل کے ساتھ ہوتی ہے۔ کسی کا یہ قول ہے کہ قدرت صرف مصححہ ہی ہوتی ہے، اور وہ فعل سے قبل اور ساتھ دونوں زمانوں میں ہوتی ہے، اور رہا استلزام تو وہ ارادہ مع قدرت کے وجود کے ذریعے حاصل ہوتی ہے، ناکہ نفسِ قدرت و ارادہ سے جو قدرت کے مسمی کا جز ہے، اور یہ قول لغتِ قرآن کے موافق ہے۔ بلکہ یہ سب امتوں کی لغات میں ہے، اور یہ اصح قول ہے۔ اب ہم یہ کہیں گے: تو قادرِ متمکن ہے۔ اس اللہ نے تم میں ایمان لانے پر قدرت پیدا کی ہے۔ لیکن تو خود ایمان نہیں لانا چاہتا، اور اگر وہ پیغمبر سے یہ کہے کہ تو اللہ سے یہ کہہ کہ وہ مجھے ایمان لانے والا بنا دے۔ تو وہ پیغمبر اسے کہے گا: اگر تو تو اللہ سے ایمان مانگتا ہے تو تو ایمان کا ارادہ کرنے والا ہے، اور اگر تو نہیں مانگتا تو تو اپنی اس بات میں جھوٹا ہے کہ وہ مجھے ایمان لانے کا ارادہ کرنے والا بنا دے۔ اگر وہ نبی سے یہ کہے کہ تو مجھے ایک ہی ایسی بات کا امر کیسے کرتا ہے جس کا اس نے مجھے ارادہ کرنے والا بنایا ہی نہیں ۔ تو یہ ارادہ کی طلب نہیں بلکہ مخاصمہ ہوگا، اور اس کا جواب دینا رسول کے ذمے نہیں ۔ بلکہ اس بات کا جواب نہ دینا انقطاع نہیں ۔ کیونکہ کسی کو بھی اجازت نہیں کہ وہ تقدیر کو آڑ بنائے۔ ۸۔ آٹھواں جواب یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ جسے بھی کوئی دوسرا کسی فعل کی طرف بلاتا اور اس کا امر دیتا ہے یا تو وہ اس بات کا مضر ہوگا کہ اللہ بندے کے ارادہ و افعال کا خالق ہے اور بندے وہی کرتے ہیں جو وہ چاہتا ہے۔ یا پھر وہ اس بات کا مضر نہ ہوگا، اور اس بات کا قائل ہوگا کہ بندے وہ بھی کرتے ہیں جو اس نے نہیں چاہا، اور وہ رب کے
Flag Counter