Maktaba Wahhabi

47 - 645
ارادہ کے بغیر اپنے جیوں کے ارادات کو پیدا کرتے ہیں ۔ پھر اگر تو وہ شخص پہلی قسم میں داخل ہے تو وہ اس بات کا مضر ہے کہ اس پر یا کسی دوسرے پر ظلم کرنے والے ہر ظالم کے ارادۂ ظلم کو پیدا کیا گیا سو اس نے ظلم کیا، اور وہ ظالم کو اس بارے معذور نہیں سمجھتا، اور اسے کہا جائے گا کہ تو اس بات کا مضر ہے کہ مامور کی مخالفت کرنے والے کے لیے یہ بات حجت نہیں چاہے وہ جو کوئی بھی ہو۔ پس ثابت ہوا کہ تقدیر کو آڑ بنا کر پیغمبروں کو لاجواب کرنے کی کوشش دونوں میں سے کسی کے لیے ہم روا نہیں چاہے وہ مضر ہو یا منکر ہو۔ اگر کوئی یہ کہے: مدعی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک کورا کاغذ ہوتا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ: یہی معاملہ ’’امر‘‘ کا بھی ہے کہ نفس امر میں حق یا تو اِن کا قول ہوگا یا اُن کا۔ دونوں صورتوں میں تقدیر کو حجت بنانا باطل ہے۔ پس مثبتین اور نفاۃ دونوں کا اس بات کے باطل ہونے پر اتفاق ہوا۔ ۹۔ نواں جواب : یہ کہا جائے کہ رسالت کا مقصود مکذب اور عاصی کو عذاب کی خبر دینا ہے۔ جیسا کہ سیّدنا موسیٰ علیہ السلام و ہارون علیہ السلام نے فرعون سے یہ کہا تھا: ﴿اِنَّا قَدْ اُوْحِیَ اِلَیْنَآ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰی مَنْ کَذَّبَ وَ تَوَلّٰیo﴾ (طٰہ: ۳۸) ’’بے شک ہم، یقیناً ہماری طرف وحی کی گئی ہے کہ بے شک عذاب اس پر ہے جس نے جھٹلایا اور منہ پھیرا۔‘‘ اب اگر تو یہ شخص یہ کہتا ہے کہ یہ کفر میں پیدا ہوا تھا اور ایمان کے ارادہ میں پیدا نہ ہوا تھا تو اسے یہ جواب دیا جائے گا کہ یہ بات مکذب و متولی کے عذاب دیے جانے کے متناقض نہیں ۔ پس اگر اس نے تجھ میں ایمان کو پیدا نہیں کیا تو تو ان لوگوں میں سے ہے جن کو وہ عذاب دے گا، اور اگر اس نے تجھے مومن بنایا ہے تو تو ان لوگوں میں سے جن کو اس نے سعید بنایا ہے، اور ہم اس کے رسول ہیں جو تجھے پیغام پہنچاتے اور تجھے ڈر سناتے ہیں ، اور رسول کا مقصود حاصل ہو گیا اور بلاغ مبین بھی ہو گیا۔ اب یہ مکلف صرف اپنے رب سے جھگڑنے میں لگا ہے۔ کیونکہ اس نے اسے اس بات کا حکم دیا ہے جس پر وہ اس کی اعانت نہیں کر رہا، اور یہ بات نہ رسول سے متعلق ہے اور نہ اس کے حق میں مضر ہے۔ اللہ کسی کو جوابدہ نہیں اور سب اسے جوابدہ ہیں ۔ ۱۰۔ دسواں جواب یہ ہے کہ یہی سوال خود اس امامی مصنف پر بھی وارد ہوتا ہے اور دیگر معتزلہ اور ان رافضہ پر بھی وارد ہوتا ہے جو ابو الحسین بصریٰ [1] کے پیروکار ہیں ۔ کیونکہ اس کا قول ہے کہ داعی اور قدرت کے ہوتے ہوئے مقدور کا وجود واجب ہوتا ہے، اور یہ کہ اللہ نے بندے میں داعی کو پیدا کر دیا ہوا ہے، اور ابو الحسین اور تقدیر کے باب میں اس کے پیروکاروں کا قول ہے اور یہی محققین اہل سنت کا بھی قول ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے بندے کی قدرت و ارادہ کو پیدا کیا ہے، اور یہ اللہ کے بندے کے فعل کی تخلیق کو مستلزم ہے، اور ان کا قول ہے کہ بندے حقیقت میں
Flag Counter