Maktaba Wahhabi

48 - 645
اپنے فعل کا فاعل اور اس کا محدث ہے۔ اسے فعل کا فاعل و محدث اللہ نے بنایا ہے۔ یہ اہل سنت کی جمہور جماعتوں کا اور اکثر اصحاب اشعری کا قول ہے۔ جیسے ابو اسحاق اسفرائینی، ابو المصالی امام الحرمین الجوینی وغیرہ۔ تو جب معتزلہ اور شیعہ کے محققین کا یہ قول تھا اور یہی جمہور اہلِ سنت اور ان کے آئمہ کا بھی قول ہے تو اختلاف قدریہ اور جہمیہ میں باقی رہ گیا کہ قدریہ کا یہ قول ہے کہ: داعی بندے کے قلب میں اللہ کی مشیئت و قدرت کے بغیر حاصل ہوتا ہے اور جہمیہ کا یہ قول ہے کہ بندے کی قدرت کی اس کے فعل میں کسی بھی اعتبار سے تاثیر نہیں ہے، اور بندہ اپنے فعل کا فاعل نہیں ۔ جو جہم اور اس کے پیروکاروں کا قول ہے۔ اگرچہ ان میں سے ایک کسبِ غیر معقول کو بھی ثابت کرتا ہے۔ جیسا کہ اشعری اور ان کے ہم نواؤں نے ثابت کیا ہے۔ جب اصل میں یہ نزاع صرف قدریہ اور جہمیہ میں رہ گیا کہ قدریہ اس بات کی نفی کرتے ہیں ۔ اللہ طاعات میں بندوں کا معین ہے اور وہ ان میں طاعات کا داعیہ پیدا کرتا ہے، اور اس کے ساتھ مومنوں کو خاص کرتا ہے۔ ناکہ کافروں کو، اور غالی جہمیہ جبریہ یہ کہتے ہیں کہ بندے کچھ بھی نہیں کرتے اور ان کی کسی بات پر قدرت ہے۔ یا یہ کہ ان کے پاس اگر قدرت ہے تو وہ اس کے ذریعے کچھ بھی نہیں کرتے، اور نہ اس قدرت کی کسی شے میں تاثیر ہے۔ تو یہ دونوں اقوال ہی باطل ہیں ۔ مزید یہ کہ اکثر شیعہ جہمیہ مجبرہ کا قول کرتے ہیں ۔ رہے اسلاف جو خلفائے اربعہ کی امامت کے قائل ہیں ۔ ان کے نزدیک یہ دونوں اقوال ہی باطل ہیں ۔ پس معلوم ہوا کہ درست قول اہلِ سنت کا ہی ہے۔ پھر اگر ان میں سے کسی سے خطا ہوئی بھی ہے تو ان کی خطا شیعہ کی خطا سے بھی بڑی ہے۔ یہ سوال اس پر بھی وارد ہوتا ہے جو تقدیر کو دلیل بنانا جائز سمجھتا ہے، اور نافرمانی ہو جانے پر اپنے اور دوسرے کے لیے یہ عذر پیش کرتا ہے کہ یہ میرے مقدر میں لکھا تھا، اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کے مشہود، حقیقت کونیہ کے شہود میں ہیں ۔ ایسے لوگ بہت ہیں ۔ ان میں سے کوئی تو اس بات کا مدعی ہے کہ وہ اہل تونیہ کے ان خواص عارفین میں سے ہے جو توحیدِ ربوبیت میں فنا ہو گئے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ عارف جب شہودِ توحید ربوبیت میں فنا ہو جاتا ہے تو اس کے نزدیک اچھائی اور برائی ایک ہو جاتی ہے، اور کسی کا یہ قول ہے کہ جسے ارادۂ کا شہود ہو جاتا ہے اس سے امر ساقط ہو جاتا ہے، اور کوئی کہتا ہے: خضر نے تکلیف ساقط ہے کیونکہ انہیں ارادہ کا شہود ہو گیا تھا۔ یہ بات متعدد متاخرین شیوخ، عبادت گزار، صوفیہ، فقراء میں بلکہ متعدد فقہاء، امراء اور عوام میں پائی جاتی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ لوگ ان معتزلہ اور شیعہ سے زیادہ بدتر ہیں جو امر و نہی کے قائل ہیں ، اور تقدیر کا انکار کرتے ہیں ۔ انہیں جیسے لوگوں کی بابت یہ معتزلہ اور شیعہ نام نہاد اہلِ سنت کی بابت زبانِ طن دراز کرتے ہیں ۔ کہ جو امر و نہی، وعدہ و وعید، ادائے واجبات اور ترکِ محرمات کا قائل ہو، اور یہ نہیں کہتا کہ اللہ بندوں کے فعل کا خالق ہے اور وہ
Flag Counter