Maktaba Wahhabi

474 - 645
اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نقائص کو جمع کرنا قطعی طور پر باطل ہے ] حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے قتل عثمان رضی اللہ عنہ پر جس دکھ و رنج کا اظہار کیا ؛ آپ کے قاتلین کی مذمت کی ؛ اور آپ کے خون کا انتقام چاہا؛ اس کا تقاضا [ہے کہ اگربالفرض کبھی کوئی ایسی بات سے آپ ہوئی ہے تو اس پر] ندامت ہے۔جیسا کہ آپ نے مدینہ طیبہ سے جنگ جمل کے لیے نکلنے پر ندامت کا اظہار فرمایا تھا۔ بیشک اگر اس واقعہ پر آپ کی ندامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور ان کے حق کا اعتراف ہے؛ تو پھر یہ[قتل عثمان پر] ندامت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور ان کے حق کا اعتراف ہے۔ اگر یہ اعتراف درست نہیں تو پھلا اعتراف بھی درست نہیں ۔ مزید برآں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جمہور صحابہ اور جمہور مسلمین سے جس قدر ملامت کا اظہار حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ہوا ہے؛ایسی ملامت کا اظہار عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے نہیں ہوا۔اگریہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پرملامت کے لیے حجت ہے ؛ تو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ملامت کے لیے بھی حجت ہے۔ اگر اس واقعہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ملامت کے لیے کوئی حجت نہیں ہے تو پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پرملامت کے لیے بھی کوئی حجت نہیں ہے۔ اگر اس سے مقصود اس ملامت گری پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان میں قدح کرنا ہے تو پھر یہ جان لینا چاہیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا [اس مسئلہ میں اکیلی نہیں ہیں ‘ بلکہ آپ ] جمہور صحابہ کیساتھ ہیں ۔ مگر اس ملامت گری کے درجات مختلف ہیں ۔ اگر اس سے مقصود تمام لوگوں پر قدح کرنا ہو‘جیسے : حضرت عثمان؛ حضرت علی ؛ حضرت طلحہ ؛ حضرت زبیر ؛ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم نیز ملامت کیے گئے اور ملامت کرنے والے ۔ تو ان سے کہا جائے گا کہ : ہم ان میں سے ہر ایک کے لیے معصوم ہونے کا دعوی نہیں کرتے۔بلکہ ہم کہتے ہیں : یہ لوگ اولیاء اللہ متقین تھے؛ ان کا شمارنجات پانے والی اللہ تعالیٰ کی جماعت میں ہوتا ہے۔ اللہ کے نیک بندے تھے ؛ اور جنت کے سرداروں میں سے تھے۔ اور ہم یہ بھی کہتے ہیں : گناہ کا صادر ہونا ان لوگوں کے لیے بھی جائز ہے جو صدیقین سے افضل ہوں ‘ او رصدیقین سے بڑے ہوں ۔ مگر ان گناہوں کی سزا توبہ ‘ استغفار ؛گناہ مٹانے والی نیکیوں ؛ مصائب و آلام ؛ اور دوسرے امور کی وجہ سے ختم ہوجاتی ہے۔ پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کے لیے توبہ و استغفارکرنا بھی ثابت ہے ‘ اور ان کی اتنی نیکیاں ہیں جو ان کے بعد آنے والے کسی کے حصہ میں نہیں آئیں ۔اور انہیں ایسی آزمائشوں اورمصیبتوں سے پالاپڑا ہے [جنہوں نے ان کے گناہ دھوکر ختم کردیے ہیں ]یہ مصیبتیں کسی دوسرے پر نہیں آئیں ۔ ان کی اتنی قابل شکر کوششیں اور نیک اعمال ہیں جو ان کے بعد آنے والوں کے حصہ میں نہیں آئے۔ یہ برگزیدہ لوگ گناہوں کی بخشش کے بعد میں آنے والے لوگوں کی نسبت زیادہ حق دار ہیں ۔ لوگوں کے بارے میں جو گفتگو ہو وہ ظلم و جہل کی بجائے علم و عدل پر مبنی ہوناواجب ہے؛ ظلم و جہالت پر مبنی کرنا اہل بدعت کا شیوہ ہے ۔ روافض کا یہ حال ہے کہ وہ دو قریب الفضیلت اشخاص میں تقابل کرتے ہوئے ایک کو معصوم قرار دیتے اور دوسرے کو ظلم و گناہ کا مجسمہ کافر و فاسق قرار دیتے ہیں ۔ یہ بات ان کے جہل و تناقض کی آئینہ دار ہے ۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی یہودی یا نصرانی جب حضرت موسیٰ یا عیسیٰ کی نبوت کا اثبات کرنے کے ساتھ ساتھ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت
Flag Counter