Maktaba Wahhabi

476 - 645
اوقات ظالم نے مظلوم کا ہاتھ اور پاؤں کاٹے ہوتے ہیں ؛ اور اس کا پیٹ چاک کیا ہوتا ہے۔مگریہ لوگ صرف اس کی گردن زنی کو ہی کافی سمجھتے ہیں ۔اور کسی ذمی کافر کے بدلہ میں کسی بہترین مسلمان کو بھی قتل کردیتے ہیں ۔ مہاجرین و انصار اور اہل ذمہ کفار کی دیت کو برابر سمجھتے ہیں ۔او رجو کوئی اپنی کسی محرم جیسے ماں یا بیٹی سے وطی کر لے ؛اوروہ اس کا حکم جانتا بھی ہو؛ اس سے حد کو محض عقد کی صورت کی وجہ سے ساقط قرار دیتے ہیں ۔مزید برآں وہ منافع کے کرایہ کو ساقط قرار دیتے ہیں ۔ اور مزدلفہ اور عرفات کے علاوہ کہیں بھی دو نمازیں اکٹھی پڑہنے کے قائل نہیں ہیں ۔ اورنہ ہی فجر کو اندھیرے میں پڑہنا مستحب سمجھتے ہیں ۔اور نہ ہی سری رکعات میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کرتے ہیں ۔ اور نہ ہی رات سے روزہ کی نیت کرلینے کو واجب کہتے ہیں ؛ حالانکہ انہیں علم ہوتا ہے کہ کل رمضان ہے۔اور مشاع کے وقف اور ہبہ اور گروی رکھنا جائز نہیں سمجھتے۔گوہ اور گھوڑے کو حرام کہتے ہیں ؛ جنہیں اللہ اوراس کے رسول نے حلال ٹھہرایا ہے۔ اور اس نشہ آور چیز کو حلال کہتے ہیں جسے اللہ اوراس کے رسول نے حرام ٹھہرایا ہے۔ ان کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ عصر کا وقت اس شروع نہیں ہوتا جب ہر چیز کا سایہ اس کا دگنا ہو جائے؛ اور کہتے ہیں : بیشک نماز فجر طلوع کے ساتھ باطل ہو جاتی ہے۔ اور قرعہ کو جائز نہیں سمجھتے۔ اورحدیث مصراۃ کو قبول نہیں کرتے؛ اور نہ ہی مشتری کے مفلس ہونے جانے پر اس کی بات مانتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں : جمعہ اوردیگر نماز ایک رکعت سے کم پر بھی ان کا ادراک ہو سکتا ہے۔ اور ایک یا دو یوم کی مسافت پر نماز کی قصر کو جائز نہیں سمجھتے؛ اور نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کرنے کو جائز سمجھتے ہیں ۔ ایسے بعض فقہائے حدیث کے متبعین کا حال ہے۔ اگر ان میں سے بعض لوگ یہ کہیں کہ ہم سنت کے بڑے متبع ہیں ؛ بیشک ہم صحیح حدیث کی اتباع کرتے ہیں ؛ جبکہ تم لوگ ضعیف حدیث پر عمل کرتے ہو۔ ان کے مقابلہ میں دوسرے لوگ کہیں : بیشک ہم صحیح حدیث کے تم سے بڑے عالم؛ اور تمہاری نسبت جو کہ ضعیف راویوں سے روایت کرتے ہیں ؛ اور ان کی صحت کا اعتقاد رکھتے ہیں ؛ سے بڑے متبع ہیں ۔وہ گمان کرتے ہیں کہ بیشک یہ چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؛ حالانکہ وہ آپ سے ثابت نہیں ہوتی۔ جیسا کہ یہ گمان کیا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھارسفر میں پوری نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔ اوریہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر میں رکوع کے بعد قنوت نازلہ پڑھتے رہے؛ حتی کہ اس دنیا سے تشریف لے گئے۔ اوریہ کہ آپ نے مطلق حج کا احرام باندھا تھا۔ جس میں آپ نے تمتع یا قران یا افراد کی نیت نہیں کی تھی۔ اوریہ کہ مکہ صلح کے ذریعہ فتح ہوا۔ اوریہ کہ جو کچھ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما اور دیگر نے جو جائداد کی تقسیم ترک کردی تھی ؛ یہ متناقض ہے۔ یہ مفقود کے بارے میں خلفائے راشدین اور صحابہ کرام جیسے حضرت علی اور ابن عمر رضی اللہ عنہم کے حکم اور فیصلہ کے خلاف ہے اور ضعیف راویوں سے منقول کئی ایک احادیث سے استدلال کرتے ہیں ۔ جب ہم یہ کہتے ہیں : ضعیف حدیث رائے سے بہتر ہے۔ اس سے مراد وہ ضعیف حدیث نہیں ہوتی جو کہ متروک ہے۔لیکن اس سے مراد حدیث ِحسن ہوتی ہے۔ جیساکہ حضرت عمرو بن شعیب کی اپنے باپ اور ان کی اپنے والد سے روایت اور حضرت ابراہیم ہجری کی روایت؛ اور ان کی امثال دیگروہ احادیث جنہیں امام ترمذی صحیح یا حسن کہتے ہیں ۔ امام
Flag Counter