Maktaba Wahhabi

488 - 645
نصرت کاترک کرنا دو میں سے کسی ایک سبب کے بنا پر ہوتا: ۱۔ یا تو لوگ آپ کی نصرت سے عاجز آگئے ہوتے۔ ۲۔ یا پھر سستی کی وجہ سے آپ کا حق ضائع کردیا گیا ہوتا ۔ ۳۔ یا پھر بغض کی وجہ سے لوگوں نے ایسا نہیں کیا ہوگا ؟ [یہ سب فرضی احتمالات ہیں ]۔ اس لیے کہ انسان اگر کوئی کام نہ بھی کرسکتا ہو ؛ پھر بھی جب پختہ ارادہ کرلیتا ہے تو اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر چھوڑتا ہے۔ اور جب ایسا نہیں کرنا چاہتا ؛ حالانکہ اس چیز کا تقاضا ہوتا ہے کہ وہ کام کیا جائے ؛ تو پھر اس کا سبب یاتو اس کام [کی اہمیت ] سے جہالت ہے یا پھر کوئی ایسی رکاوٹ موجود ہے جس کی وجہ سے وہ اپنا ارادہ پورانہیں کرسکتا۔ اگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے شرف ‘ اپنے قبیلہ اور والد محترم کے شرف و احترام کے باوجود مظلوم ہوتیں ؛ حالانکہ آپ کے والد محترم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی مخلوق میں سب سے افضل ترین انسان اور امت کو سب سے بڑھ کر محبوب ہستی ہیں ۔ اور لوگوں کو یہ علم ہو کہ آپ مظلوم ہیں ؛ اورپھر بھی لوگ آپ کی نصرت سے رُکے رہیں ؛ تو اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ یا تو لوگ آپ کی نصرت کرنے سے عاجز آگئے ہوں ؛ یا پھر آپ کے ساتھ بغض کی وجہ سے آپ کی نصرت کا ارادہ ترک کردیا ہو۔ یہ دونوں باتیں [فقط احتمال اور] باطل ہیں ۔ اس لیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سارے کے سارے عاجز بھی نہیں آگئے تھے کہ آپ کی نصرت میں ایک کلمہ تک اپنی زبانوں پر نہ لاسکیں ۔ بلکہ وہ کسی بھی بڑی سے بڑی برائی کو روکنے پر قادر تھے۔ اس پر مزید یہ کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس ضمن میں کسی کی گفتگو پر کان دھرنے سے منکر نہ تھے۔ وہ طبعاً جابر بھی نہ تھے۔ نظر بریں یہ کسی طرح تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ الفت و مودّت کے اسباب کی موجودگی میں سب مسلمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دختر نیک اختر رضی اللہ عنہا کے دشمن بن گئے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی یہی حال ہے۔ یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ دورِ جاہلیت و اسلام میں جمہور قریش و انصار کو خصوصاً اور اہل عرب کو عموماً حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کوئی شکایت نہ تھی اور نہ ہی آپ نے اپنے اقارب میں سے کوئی قتل کیا۔ جن لوگوں کوحضرت علی رضی اللہ عنہ نے قتل کیا ان کا تعلق کسی بڑے قبیلہ سے نہیں تھا۔ صحابہ میں سے کوئی ایسا نہیں تھا جس نے اپنے کسی قریبی کو قتل نہ کیا ہو۔ البتہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بدو کفار عرب کے حق میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت بڑے سخت تھے۔ یوں بھی آپ کی شدت و حدّت ضرب المثل کی حد تک معروف تھی۔ مگر بایں ہمہ آپ خلیفہ منتخب ہوئے اور اس قدر مقبول ہوئے کہ جب شہید ہوئے تو کوئی شخص آپ سے ناراض نہ تھا؛بلکہ تمام لوگ اچھے الفاظ میں آپ کی تعریف کرتے تھے اور آپ کے لیے دست بہ دعا تھے۔ سب لوگوں کو آپ کی شہادت کا صدمہ ہوا۔ اس سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں شیعہ کے دعوے من گھڑت اور بے بنیاد ہیں ۔ نیز یہ کہ مسلمان سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو قطعی طور پر مظلوم تصور نہیں کرتے تھے۔پھر یہ بات کس قدر حیرت آفریں ہے کہ مسلمان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قصاص لینے کے لیے تو اپنی جانیں تک قربان کردیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کا کوئی یار و مدد گار نہ ہو۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ صفین میں بنو عبد
Flag Counter