Maktaba Wahhabi

489 - 645
مناف کی مخالفت کے باوجود حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی نصرت و اعانت کے لیے گردنیں تک کٹوا دیں ؛مگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کے بعد ان کو منصب خلافت سے الگ کرنے کے لیے کوئی مسلمان حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ نہ دے ۔حالانکہ بنو عبد مناف ان کے ساتھ تھے۔ مثلاً عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ ، بنی ہاشم میں سب سے بڑے تھے اور ابو سفیان بن حرب رضی اللہ عنہ بنو امیہ میں سب سے بڑے تھے۔ اور یہ دونوں اکابر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف مائل تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسے نازک مرحلہ پر ابتداء ہی میں لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خلاف صف آرائی کیوں نہ کی ؟ حالانکہ صدیقی خلافت کا ابھی آغاز تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نصرت و حمایت کے لیے لڑنا اولیٰ و افضل تھا؛ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے ولایت کا حاصل ہونا آسان بھی تھا۔ تاریخ اسلام کے ایسے نازک موڑ پر اگر کچھ لوگ سامنے آکر یہ کہہ دیتے کہ علی رضی اللہ عنہ وصی ہیں ، لہٰذا ہم کسی اور کی بیعت کرکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کا ارتکاب نہیں کر سکتے۔ نیز یہ کیوں کر ممکن ہے کہ بنو ہاشم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر بنو تیم کے ظالموں اور منافقوں کا ساتھ دیں ؟ ۔حالانکہ بنو ہاشم جاہلیت اور اسلام ہر دور میں بہترین لوگ رہے ہیں ۔اگر ایسا ہوتا تو عوام الناس ان کی حمایت کے لیے کھڑے ہو جاتے خصوصاً جب کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس ترغیب و تخویف کا کوئی سامان موجود نہ تھا۔ فرض کیجیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امداد کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور لوگوں کی ایک جماعت موجود تھی۔ تو یہ لوگ کسی صورت میں بھی تعداد کے اعتبار سے ان لوگوں سے زیادہ نہیں ہو سکتے جو واقعہ جمل میں طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما اور واقعہ صفین میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور اس کے باوصف حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ کی تھی۔ باوجود اس کے کہ یہ لوگ علم و دین کے اعتبار سے حضرات سابقین اولین سے بہت ہی فروتر تھے۔ان میں سابقین اولین کی بہت کم تعداد تھی۔ تو پھراگر حضرت علی رضی اللہ عنہ اس وقت حق پر تھے اور ان کے مخالفین باطل پر تھے تو ان لوگوں سے انہوں نے قتال کیوں نہ کیا جو ان کی نسبت بہت زیادہ افضل تھے؟ حالانکہ اس وقت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اولیاء و انصار کثرت کے ساتھ ساتھ شان و شوکت سے بہرہ ور تھے؛ اور علم و ایمان میں بھی عظمتوں کے حامل تھے۔اور آپ کے مخالفین ۔بالفرض اگر اس وقت کوئی مخالف تھا؛ تو وہ۔ عاجزی و کمزوری کا شکار تھے ؛ علم و ایمان میں بھی فروتر تھے۔ اور دشمنی میں بھی کم تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلاف نبرد آزما ہونے میں کیا چیز مانع تھی؟ یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر ہوتے تو ابوبکر و عمر اور سابقین اوّلین صحابہ رضی اللہ عنہم دنیا کے بدترین لوگوں میں سے ہوتے اور ان کا ظالم و جاہل ہونا کسی شک و شبہ سے بالا ہوتا۔ کیونکہ انہوں نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے فوراً بعد دین کو بدل دیا ‘ اور اس میں تحریف کردی ؛ آپ کے وصی پر ظلم کیا ۔ اور آپ کی نبوت کے ساتھ وہ حشر کیا جو یہود و نصاری حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے فوراً بعد نہ کرسکے۔ اس لیے کہ یہودیوں نے موسی علیہ السلام کی موت کے بعد وہ کچھ نہیں کیا جو رافضیوں نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے کہ ان لوگوں نے اپنے نبی کی موت کے بعد ایسے کیا۔ ان کے قول میں اگر واقعی سچائی ہوتی تو اس امت کاشمار بدترین اور شریر ترین امتوں میں ہوتا ۔ اور اس کے پہلے
Flag Counter