Maktaba Wahhabi

497 - 645
کرتے۔جبکہ رافضی اس کے مقابلہ میں محمد بن ابو بکر کو خاص طور پر پیش کرتے ہیں ۔ جب کہ اسے علم ودین [تقوی اور زہد ] میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی ہوا بھی نہیں لگی۔ بلکہ وہ اپنے بھائی عبدالرحمن بن ابو بکر رضی اللہ عنہما کے برابر بھی نہیں ہے۔ حضرت عبد الرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما کو صحبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شرف حاصل ہے۔جبکہ محمد بن ابوبکر رضی اللہ عنہ حجۃ الوداع والے سال ذوالحلیفہ کے مقام پرپیدا ہوا ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو حکم دیا کہ: حالت نفاس میں ہی غسل کریں اوراحرام کی نیت کر لیں ۔بعد میں آنے والے لوگوں کیلئے یہ عمل ایک سنت بن گیا۔ محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے صرف پچیس ذوالقعدہ سے لیکر ربیع الاول کے شروع تک کے ایام پائے ۔ یہ چارہ ماہ بھی نہیں بنتے۔جب آپ کے والد محترم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو اس وقت آپ کی عمر تین سال سے بھی کم تھی۔آپ کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی ہونے کاشرف حاصل نہیں ۔اور نہ ہی باپ کی منزلت سے کوئی قربت حاصل ہے ۔ بس صرف اتنی ہی قربت تھی جو اس عمر کے کسی بھی بچے کو اپنے باپ سے ہوتی ہے ۔ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مختص ہونے کی وجہ یہ تھی کہ محمد آپ کے پروردہ اور آپ کی بیوی کے بیٹے تھے ۔اس لیے کہ حضرت ابوبکر کی وفات کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کی بیوی اور محمد کی ماں اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کر لیا تھا۔ عثمانی خلافت کے زمانہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے محمد بن ابی بکر پر شرعی حد لگائی تھی؛جس کا محمد نے اپنے باپ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی منزلت کی وجہ سے اپنے دل میں ملال محسوس کیا۔یہی وجہ تھی کہ جب اہل فتنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی تویہ بھی ان کیساتھ تھا۔بلکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر میں داخل ہوا اور ان کی داڑھی پکڑی۔توحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: تم نے بہت بڑی جگہ ہاتھ ڈالا ہے؛ تمہاراباپ اس داڑھی کو کبھی ہاتھ لگانے والا نہیں تھا۔کہا جاتا ہے : جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات کہے تو محمد واپس چلا گیا۔جس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کیا وہ کوئی دوسرا آدمی تھا۔ پھر اس نے مختلف جنگوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ آپ کی جانب سے والی مصر قرار پایا۔ پھر لڑائی میں مارا گیا ۔شیعان عثمان نے اسے قتل کیا؛اور نعش گدھے کی کھال میں بند کرکے جلا دی گئی؛ اسے قتل کرنے والا معاویہ بن حدیج نامی شخص تھا۔[ اور اس طرح اسکے گناہوں کا کفارہ ہو گیا اور قتل اسکے حق میں بہتر ثابت ہوا]۔[الاصابہ ۳؍۳۱۱ ؛ الاعلام ۸؍۱۷۱ ؛ تاریخ الطبری ۵؍ ۱۰۳] روافض کی یہ پرانی عادت ہے کہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کوقتل کرنے والوں کی مدح و ستائش میں رطب اللسان رہتے ہیں ۔ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے معاونین کی تعریف و توصیف میں مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہیں ۔ اسی عادت کے مطابق وہ محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ کی تعریف و توصیف میں مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہیں ۔ جس کی حد یہ ہے کہ وہ محمد کو ان کے والد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں افضل قرار دیتے ہیں ۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد افضل امت پر تو لعنت بھیجی جائے اور ان کے اس بیٹے کی مدح و ستائش میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جائیں جس کو صحبت نبوی
Flag Counter