Maktaba Wahhabi

517 - 645
’’اے اللہ کے رسول!میں نے خواب دیکھا کہ گویا ایک ڈول آسمان پر لٹکایا گیا۔ پس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے اس ڈول کے کنارے پکڑ کر تھوڑا سا پی لیا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو انہوں نے اس کے کنارے پکڑے اور اتنا پیا کہ پیٹ بھر گیا۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے اس کے کنارے پکڑکر پیا؛ یہاں تک کہ سیر ہوگئے۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو انہوں نے اس کے دونوں کنارے پکڑے تو وہ ڈول ہل گیا اس کے پانی کے کچھ چھینٹے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر پڑ گئے۔‘‘[1] حضرت امام شافعی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے :’’ خلفاء تین ہیں : حضرت ابو بکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم ۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول تمام احادیث صحیحہ برحق ہیں ۔ وہ خلافت جس پرتمام مسلمانوں کا اجماع ہوا تھا؛ اور جس دور میں کفار سے قتال کیا گیااور دین اسلام کو غلبہ نصیب ہوا وہ حضرات ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کی خلافت ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دور میں مسلمانوں کا آپس میں اختلاف ہوگیا تھا۔ اس دور میں مسلمانوں کی قوت کچھ اچھی حالت میں باقی نہ رہی تھی۔اور نہ ہی اس دور میں کفار پر کوئی غلبہ اور رعب باقی رہا۔یہ بات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ راشد ہونے میں قدح کا سبب نہیں بن سکتی۔[حقائق کے پیش نظر] اتنا کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح پہلے خلفاء کو اقتدار اور قوت حاصل تھی ؛ ایسی قوت آپ کو حاصل نہ ہوسکی۔ اور امت آپ کی اطاعت سے ایسے شرفیاب نہ ہوسکی جیسے آپ سے پہلے کے خلفاء کی اطاعت کرتی تھی ۔پس اس بنا پر آپ کے عہد مسعود میں ایسی عام اور مکمل خلافت قائم نہ ہوسکی جیسے آپ سے پہلے تین خلفاء کے دور میں تھی۔ حالانکہ آپ کا شمار بھی ہدایت یافتہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم میں ہوتا ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ: ’’ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ جنگ کرنے میں حق پر تھے ؛ مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کیساتھ جنگ میں حق پر نہیں تھے۔ان کا قول پھلے گروہ کے قول کی نسبت ضعیف ہے۔ ان لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ : ’’حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا مطالبہ کررہے تھے۔ آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے چچا زاد اور ولی تھے۔ اولاد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے دیگر رشتہ دار حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہوگئے تھے ؛ اور ان کا مطالبہ تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یاتو قاتلین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ان کے حوالے کردیں ‘ یا پھر خود ان سے قصاص لیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایسا نہیں کیا ۔ اس وجہ سے انہوں نے آپ کی بیعت ترک کردی اور آپ کے خلاف برسر پیکار ہوگئے۔اور دوسری بات یہ ہے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ شروع کی تھی ؛ انہوں نے اپنے نفوس و بلاد کے دفاع میں اسلحہ اٹھایا تھا۔ اس وجہ سے انہوں نے کہنا شروع کردیا تھا: کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان پر ظلم اور سرکشی کرتے ہیں ۔ رہی وہ حدیث جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’ تجھے باغی جماعت قتل کرے گی۔‘‘بعض محدثین نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ بعض نے اس کی تاویل کی ہے۔ بعض نے کہا ہے : اس سے مراد خون [عثمان رضی اللہ عنہ ] کا مطالبہ کرنے والی جماعت ہے۔جیسا کہ بعض لوگ نعرہ لگاتے تھے کہ ہمیں خون عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ
Flag Counter