Maktaba Wahhabi

521 - 645
منسوب کیں جن سے حقیقت میں وہ اللہ کے ہاں بری تھے۔‘‘ ٭ اب اگر کوئی کہے کہ : ’’ صرف اس بنا پر تو ان سے جنگ کرنا جائز نہ تھا ۔‘‘ ٭ تواس کے جواب میں کہا جائے گا کہ : ’’ ایسے ہی دوسرے لوگوں کو قتل کرنا بھی آپ کے حق میں مباح نہ تھا؛ اس لیے کہ آپ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے سے عاجز تھے۔ اگر مان لیا جائے کہ آپ ایسا کرسکتے تھے ‘ مگر نہیں کیا ؛ تو اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے واجب ترک کیا ؛ اس میں یا تو آپ تاویل کررہے تھے ‘ یا پھر گنہگار تھے ۔ تو پھر بھی اس بنا پر جماعت مسلمین میں تفریق پیدانہیں کی جاسکتی تھی اور نہ ہی آپ کی بیعت سے پیچھے رہنا اور آپ سے جنگ کرنا جائز تھا۔ بلکہ آپ کی بیعت کرلینے میں دین کے لحاظ سے ہر حال میں خیر اور بہتری تھی۔اس میں مسلمانوں کے لیے بھی نفع تھا؛اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے زیادہ قریب تر تھا۔ صحیحین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین باتیں پسند کرتے ہیں : ۱....تم اللہ کی بندگی کرو‘اوراس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ ۲....اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو ‘ او رآپس میں تفرقہ نہ کرو ۔ ۳....اور جس کو اللہ تعالیٰ تم پر حکمران بنادے اس کے لیے خیر خواہی کرتے رہو۔‘‘[1] حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مسلمان مرد پر حاکم کی بات سننا اور اطاعت کرنا لازم ہے خواہ اسے تنگی ہو یا آسانی؛ اور خواہ اسے پسند ہو یا ناپسند ہو۔ سوائے اس کے کہ اسے کسی گناہ کا حکم دیا جائے پس اگر اسے معصیت ونا فرمانی کا حکم دیا جائے تو نہ اس کی بات سننا لازم ہے اور نہ اطاعت کرنا۔‘‘[2] صحیحین میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ’’ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تنگی اور آسانی میں پسند و ناپسند میں اور اس بات پر کہ ہم پر کسی کو ترجیح دی جائے؛ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کی۔ اور اس بات پر بیعت کی کہ ہم حکام سے حکومت کے معاملات میں جھگڑا نہ کریں گے۔ اور اس بات پر بیعت کی کہ ہم جہاں بھی ہوں گے حق بات ہی کہیں گے اللہ کے معاملہ میں ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ رکھیں گے۔‘‘[3] بخاری و مسلم میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
Flag Counter