Maktaba Wahhabi

522 - 645
’’جو شخص اپنے امیر کی کوئی ایسی بات دیکھے جسے وہ ناپسند کرتا ہو تو اس پر صبر کرے، کیونکہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھر الگ ہوایقینااس اپنی گردن سے اسلام کا طوق اتار پھینکا۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے:’’ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھر الگ ہوتاہے، اور اسی حالت میں مرجاتا ہے، تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوتی ہے۔ ‘‘[1] حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جس نے اطاعت امیر سے ہاتھ نکال لیا تو وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اسکے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی اور جو اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں کسی کی بیعت نہ تھی وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘[2] ایک روایت میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تین لوگ ایسے ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن بات بھی نہیں کریگا؛ اور نہ ہی انہیں پاک کرے گا اورنہ ہی ان کی جانب دیکھے گااور ان کیلئے دردناک عذاب ہوگا: پہلا وہ آدمی جو دنیا کی غرض کے لیے حاکم کی بیعت کرے ۔ اگر اسے کچھ مل جائے تو خوش ہوجائے ‘اور اگر کچھ نہ ملے تو ناراض رہے ....‘‘ [البخاری ۳؍۱۷۸؛ مسلم ۱؍۱۰۳] بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے اسی طرح مروی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تم پر حبشی غلام ہی حاکم کیوں نہ ہو جس کا سر کشمش کی طرح (یعنی چھوٹا سا) ہو۔‘‘[3] اہل کوفہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی؛ آپ کے وقت میں آپ سے بڑھ کر کوئی دوسرا خلافت کا حق دار نہیں تھا۔ آپ خلیفہ راشد تھے اور آپ کی اطاعت واجب تھی۔اور یہ بات بھی سبھی جانتے ہیں کہ قاتل کو قتل کرنا خون کی حفاظت کے لیے ہوتا ہے۔جب ایسا احتمال ہو کہ چند لوگوں کے قتل کیے جانے کی وجہ سے بہت بڑا فتنہ و فساد بپا ہوگا‘ اوراس سے کئی گنا زیادہ لوگ قتل ہوجائیں گے ؛ تو پھر ایسا کرنا نہ ہی اطاعت کا کام ہوتا ہے اور نہ ہی مصلحت ۔ صفین [اور جمل ] کے موقع پر عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والوں سے کئی گنا زیادہ لوگ قتل ہوگئے ۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ: ’’مسلمانوں کی تفرقہ بندی کے وقت ایک فرقہ کا ظہور ہوگا ‘ اور ان دو گروہوں میں سے ان کو وہ لوگ قتل کریں گے جو حق کے زیادہ قریب ہوں گے۔‘‘ [مسلم ۲؍۷۳۵؛ سنن ابو داؤد ۳؍۳۰۰]
Flag Counter