Maktaba Wahhabi

597 - 645
جنہیں کوئی قوت و اختیار حاصل نہیں جس سے کوئی فائدہ حاصل ہوسکے ۔ اور نہ ہی ان کے پاس کسی عام مسلمان سے بڑھ کر کوئی علم اور دین ہے۔[جب کہ اس کے برعکس]ان [اہل سنت ]کا عقیدہ ہے کہ حاکم کی نیکیاں بھی اتنی زیادہ ہوتی ہیں جو اس کے گناہوں کو ڈھانک لیتی ہیں ۔ اور ایساہونا فی الجملہ ممکن ہے ۔ کسی بھی مسلمان کے لیے اس بات کا امکان ہے اس کی نیکیاں اتنی ہوں جو اس کی برائیوں پر غالب آجائیں ۔ اگرچہ یہ گواہی کسی متعین شخص کے لیے بغیر کسی شرعی دلیل کے نہیں دی جاسکتی۔ مگر یہ دعوی کرنا کہ مسلمانوں میں کوئی[ ایک صاحب شریعت سے] بڑھ کر دیندار اور عالم ہے ‘ اور خطأ سے معصوم ہے ؛ تو یہ نظریہ بالکل باطل ہے۔بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کے لیے بھی معصوم ہونے کا دعوی کرنا قطعی طور پر باطل ہے ۔ اس سے واضح ہوگیا کہ ان لوگوں میں سے جس کسی نے کسی کے معصوم ہونے کا دعوی کیا ہے وہ اپنی جہالت اور گمراہی کے باوجود حق کے زیادہ قریب اور رافضیوں سے کم درجہ کا جاہل ہے ۔جس انسان نے یزید کے صحابی یا نبی ہونے کا دعوی کیا وہ [گمراہ ہونے کے باوجود] ان رافضیوں سے جہالت و گمراہی میں کم تر ہے جو شیعہ شیوخ کے لیے نبوت و الوہیت کا دعوی کرتے ہیں ۔ خصوصی طور پر اسماعیلیہ اورنصیریہ کے شیوخ؛ جو کہ یہود و نصاری سے بڑے کافر ہیں ‘ اور ان کے ماننے والے ان کے متعلق الوہیت کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ جب کہ علماء اہل سنت والجماعت کے مقبول ومروی قول کے مطابق ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو یزید اور اس جیسے دوسرے خلفاء کو جناب حضرت ابو بکر و عمر و عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم خلفاء راشدین مہدیین کے برابر سمجھتے ہوں ۔بلکہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ و ایمان اصحاب سنن کی روایت کردہ اس حدیث کے مطابق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ خلافت نبوت تیس سال تک ہوگی پھر ملوکیت کا آغاز ہوگا۔‘‘[یہ حدیث پہلے گزرچکی ہے]۔ اگر یزید کی امامت سے مراد یہ ہے کہ وہ دیگر اموی و عباسی خلفاء کی طرح سلطان وقت اور صاحب السیف تھا تو یہ ایک یقینی بات ہے جسے سبھی جانتے ہیں ۔اور اس کا انکار کرنے والا حقیقت واقعہ کا منکر ہے۔یزید کی بیعت اس وقت کی گئی جب ان کے والد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔اس طرح یزید بلاد شام؛ مصر‘ عراق؛ خراسان اور دیگر علاقوں کا حاکم بن گیا۔[1]
Flag Counter