Maktaba Wahhabi

613 - 645
اختیار کر لے گی جو حکمرانوں کے ظلم سے بہت بڑھ کر ہوگی۔ پس دو بڑی خرابیوں میں ایک ہلکی خرابی ہمیشہ سے بہتر سمجھی جاتی رہی ہے۔ جو کوئی کتاب اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت سنتوں پر غور کرے گا؛ اوراپنے نفس میں اورگردو نواح میں غوروفکر کرکے درس عبرت حاصل کرے گاتو اس پر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی صداقت کی حقیقت عیاں ہو گی: ﴿سَنُرِیہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِیْ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہٗ الْحَقُّ ﴾ (فصلت ۵۳) ’’ عنقریب ہم انھیں اپنی نشانیاں دنیا کے کناروں میں اور ان کے نفسوں میں دکھلائیں گے، یہاں تک کہ ان کے لیے واضح ہو جائے کہ یقیناً یہی حق ہے۔‘‘ بیشک اللہ تعالیٰ بندوں کو کائنات میں پھیلی ہوئی اور خود ان کی ذات میں موجود اپنی نشانیاں دیکھاتے ہیں ؛ حتی کہ ان پر واضح ہو جائے کہ یہ قرآن حق ہے؛ اور اس کی خبریں سچی ہیں ؛ اور اس کا احکام عادلانہ ہیں ۔ فرمایا: ﴿وَ تَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ﴾ (الانعام ۱۱۵] ’’ اور تیرے رب کی بات سچ اور انصاف کے اعتبار سے پوری ہوگئی، اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘ اس باب سے متعلق یہ علم میں سے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کوئی بہت بڑا اہل علم اور دین دار انسان ؛ خواہ وہ صحابہ و تابعین میں سے ہو ؛ یا ا ن کے بعد قیامت تک آنے والوں میں سے ہو؛ یااہل بیت میں سے؛یا کوئی دیگر؛ کبھی اس سے اس کے گمان کی بنا پر کوئی اجتہاد ہو سکتا ہے؛ جس میں کوئی ہلکی پھلکی اپنی خواہش نفس بھی شامل ہو؛ تو اس کا نتیجہ ایسا ہوتا ہے جس میں اس کی اتباع نہیں کی جاسکتی ؛ بھلے وہ اللہ تعالیٰ کا بڑا متقی ولی ہو۔ ایسا واقع جب پیش آجائے تو دو گروہوں کے مابین فتنہ پیدا ہو جاتا ہے؛ایک گروہ اس کی تعظیم و عظمت کا قائل ہوتا ہے؛ وہ اسکے اس فعل کو درست سمجھتے اور اس کی اتباع چاہتے ہیں ۔ جب کہ دوسرا گروہ اس پر تنقید اور اس کی ولایت اور تقوی پر قدح کررہا ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ اس کے نیک و کار اور جنتی ہونے پر بھی قدح کرتے ہیں ۔ بلکہ اس کے ایمان پر بھی کلام کرتے ہیں ؛ اور اسے ایمان سے خارج قرار دیتے ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک گروہ کی رائے فاسد ہے۔ خوارج اور روافض اور اہل أھواء فرقوں پر اسی عنصر کا دخل ہے۔ جو کوئی اعتدال کی راہ پر چلتاہے وہ صرف ان کی تعظیم کرتا ہے جو اس کے لائق ہو؛ پھر ان سے محبت اور دوستی کرتا ہے۔اہل حق کو ان کا حق دیتا ہے۔ وہ حق کی بنا پر تعظیم کرتا ہے؛ اور حق کی بنا پر رحم کرتا ہے۔اور وہ جانتا ہے کسی ایک انسان کی نیکیاں بھی ہوتی ہیں اور بدیاں بھی۔ پس وہ لائق ستائش بھی ہے اور لائق مذمت بھی؛اسے ثواب بھی مل سکتا ہے اور سزا بھی۔ اورایک بنا پر اس سے محبت کی جاسکتی ہے؛ اور دوسری کی بنا پر بغض۔یہ اہل سنت و الجماعت کا مذہب ہے؛ جو کہ خوارج معتزلہ اور ان کے ہمنواؤں کے برعکس ہے؛ اور اپنی جگہ پر اس کی تفصیل بیان ہو چکی ہے۔
Flag Counter