Maktaba Wahhabi

630 - 645
تو یقیناً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس متعین شخص پر لعنت کرنے سے منع فرمایا؛ جو کہ کثرت کے ساتھ شراب پیتا تھا ؛ اور آپ نے اس کی علت یہ بتائی کہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلق طور پر شراب پینے والے پر لعنت کی ہے۔ تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مطلق پر تو لعنت کرنا جائز ہے؛ مگر اس متعین پر لعنت کرنا جائز نہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہو۔ یہ بات تو معلوم شدہ ہے کہ ہر مؤمن لازمی طور پر اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ لیکن اسلام کا اظہار کرنے والوں میں منافق بھی تھے ۔ وہ لعنتی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت نہیں کرتے تھے۔اور جب ان میں سے کسی ایک کے حال کا علم ہوجائے تو اس پر نماز جنازہ نہ پڑھی جائے؛ فرمان الٰہی ہے : ﴿ وَ لَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍمِّنْہُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ ﴾ (التوبۃ ۸۳) ’’ اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس کا کبھی جنازہ نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا ۔‘‘ اہل سنت و الجماعت میں سے جن لوگوں نے متعین فاسق پر لعنت کو جائز کہا ہے؛ ان کا کہنا ہے کہ یہ جائز ہے کہ ہم اس پر نماز جنازہ بھی پڑھیں ؛اور اس پر لعنت بھی کریں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ثواب کا بھی مستحق ہے؛ اور سزا کا بھی مستحق بھی ۔ اس پر نماز جنازہ اس کے ثواب کے مستحق ہونے کی وجہ سے پڑھی جائے گی؛ اور اس پر لعنت اس کے عقاب کے مستحق ہونے کی وجہ سے ہوگی۔ لعنت کا مطلب ہوتا ہے رحمت سے دوری؛ اس پر نماز جنازہ پڑھنا رحمت کا سبب ہے؛ پس ایک وجہ سے اس پر رحمت ہوگی؛ اور دوسری وجہ سے اسے رحمت سے دوری حاصل ہوگی۔ یہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ اور تمام اہل سنت و الجماعت کا مذہب ہے۔اور ان کے ساتھ کچھ کرامیہ ؛ مرجئہ اور شیعہ بھی شامل ہیں ۔ اور بہت سارے شیعہ امامیہ اور دیگر کا بھی مذہب ہے؛ جو کہتے ہیں : فاسق ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا۔ اور جو لوگ کہتے ہیں کہ: وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا؛ جیسے خوارج اور معتزلہ اور بعض شیعہ ؛ تو ان کے نزدیک ایک ہی شخص کے حق میں ثواب اور عقاب جمع نہیں ہوسکتے۔ اس بابت سنن نبویہ مشہور ہیں کہ کچھ لوگوں کو شفاعت کی بنا پر جہنم کی آگ سے نکالا جائے گا۔ اور وہ آدمی بھی نکالا جائے گا جس کے دل میں ایک ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا۔ پس اس اصول کی بنیاد پرجو لوگ یزید اور اس کے امثال پر لعنت کو جائز کہتے ہیں ؛انہیں دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے: اول: یہ کہ وہ آدمی ان فاسق اور ظالموں میں سے تھا جن پر لعنت کرنا مباح ہے؛ اور وہ اسی پرمصر مرا ہے۔ دوم : یہ ان میں سے کسی ایک متعین پر لعنت کرنا جائز ہے۔ ان کے ساتھ اختلاف رکھنے والا ان دونوں مقدمات پر طعن کرتے ہیں ۔خصوصاً پہلے مقدمہ پر۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کے اس فرمان گرامی کا تعلق ہے : ﴿ اَ لَا لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظَّالِمِیْنَ﴾ (ھود:۱۸) ’’آگاہ ہو جاؤ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔‘‘
Flag Counter