Maktaba Wahhabi

631 - 645
یہ وعید کی طرح ایک عام آیت ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْبَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِہِمْ نَارًا وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًاo﴾ [النساء۱۰] ’’ بے شک جو لوگ یتیموں کے اموال ظلم سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ کے سوا کچھ نہیں کھاتے اور وہ عنقریب بھڑکتی آگ میں داخل ہوں گے۔‘‘ اس آیت کریمہ کا تقاضا ہے کہ یہ گناہ لعنت اور عذاب کا سبب ہے۔لیکن کبھی یہ سبب اس سے ٹکرانے والے راجح سبب کی وجہ سے ختم ہوسکتا ہے؛ جیسے توبہ ؛ گناہ مٹانے والی نیکیاں ؛ کفارہ بننے والی مصیبتیں وغیرہ۔ تو کسی انسان کو یہ علم کیسے حاصل ہوگا کہ یزید یا کسی دوسرے ظالم نے اس گناہ سے توبہ نہیں کی؟ یا پھر اس کی کوئی ایسی نیکیاں نہیں تھیں جو اس ظلم کے گناہ کو مٹا دیں ؟ یا اس پر ایسے مصائب نہیں آئے جو اس کے گناہوں کا کفارہ بن سکیں ۔ یا پھر اللہ تعالیٰ اس کا یہ گناہ معاف نہیں کریں گے؛ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ﴾ (النساء۳۸) ’’بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور وہ بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے، جسے چاہے گا ۔‘‘ صحیح بخاری میں ثابت ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو پہلا لشکر قسطنطنیہ پر حملہ کرے گا؛ وہ بخشا ہوا ہے ۔‘‘[1] وہ پہلا لشکر جس نے یہ غزوہ کیا؛ اس کا امیر یزید تھا۔ لشکر کا لفظ ایک متعین عدد پر بولا جاتا ہے؛ مطلق نہیں ہوتا۔ اور اس لشکر میں موجود کسی ایک فرد کو مغفرت کا شامل ہونا اس میں موجود ہر ایک ظالم کولعنت کے شامل ہونے سے زیادہ قوی ہے۔ کیونکہ یہ ایک خاص معاملہ ہے۔ جبکہ جیش یعنی لشکر کے لوگ متعین ہیں ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یزید نے غزوہ قسطنطنیہ اسی حدیث کی وجہ سے کیا تھا۔ اور ہم یہ بات جانتے ہیں کہ اکثر مسلمان کسی نہ کسی طرح ظالم ہوتے ہی ہیں ۔ اگر یہ دروازہ کھول دیا جائے تو اکثر مسلمان مردوں پر لعنت کرنے کی راہیں وا ہو جائیں گی ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مردوں کی نماز جنازہ پڑھنے کا حکم دیا ہے؛ ان پر لعنت کرنے کا حکم نہیں دیا ۔‘‘ پھر مردوں پر لعنت کرنے کا مسئلہ ؛ زندوں پر لعنت کی نسبت بہت ہی زیادہ خطرناک ہے۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی ممانعت ثابت ہے؛ آپ نے ارشاد فرمایا:’’ مردوں کو برا بھلا نہ کہو؛ بیشک وہ اپنے اعمال تک پہنچ چکے ہیں ۔‘‘[2]
Flag Counter