Maktaba Wahhabi

233 - 660
شک میں پڑگئے اورکچھ کفارنے اعتراض کیا کہ ہمیں بیت المقدس آنے جانے میں کئی ماہ بیت جاتے ہیں توایک ہی رات میں(اوپرآسمان والی بات تودوررہی)بیت المقدس جاکرپھر واپس بھی آگیا۔ظاہر ہے کہ یہ اعترض جسمانی معاملہ پر ہے ورنہ خواب میں یا روحانی طرح انسان کہیں دورجاکربہت کچھ دیکھ آتا ہے کبھی دیکھتا ہے کہ میں مکہ مکرمہ میں پہنچ گیاہوں طواف کررہا ہوں حجراسودکوبوسہ دے رہا ہوں،ان سب معاملات کو بتانے پر کوئی بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتالیکن اگرکوئی شخص یہ کہے کہ آج رات میں جاگتے ہوئے مکہ مکرمہ گیا تھا طواف وغیرہ کرکے واپس آگیا ہوں تویہ بات قابل اعتراض ہے اورواقعی لوگ اس پر اعتراض کریں گے۔ اسی طرح اگر یہ معاملہ صرف روحانی تھا توکفارکااعتراض بالکل بے معنی ہے اوروہ اس طرح نہ کہتے کہ اگر واقعتاً تم گئے ہوتوہمیں بیت المقدس کی نشانیاں بتادو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی اس بات پر پریشان نہ ہوتے کہ میں خاص طورپر نشانیاں نوٹ کرنے تونہیں گیا تھا اوراب ان کو کیا بتاؤں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمادیتے کہ میں نے یہ دعوی تونہیں کیا کہ میں جسم کے ساتھ سیر کرکے آیا ہوں یہ صرف خواب یا روحانی معاملہ تھا۔ اس طرح فرمادیتے اورسارامعاملہ ختم ہوجاتا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج والی یہی بات ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے کفار نے بطور اعتراض پیش کی توانہوں نے فرمایا: اگرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کہی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل سچ فرمایاہےواقعتاً آپ نے یہ سیرکی ہے اس میں بھی واضح دلالت موجود ہے کہ یہ معاملہ جسمانی تھا کیونکہ اگریہ واقعہ روحانی تھا یا محض خواب تھا پھر صدیق اکبررضی اللہ عنہ صاف فرمادیتے ارے کیا بات کرتے ہویہ توروحانی معاملہ ہے یا خواب کا واقعہ ہے اس پر اعتراض کیا معنی رکھتا ہے؟بہرحال ایک منصف مزاج اورحق پرست کے لیے مذکورہ بالادلائل کافی وشافی ہیں باقی کج بحث اورہٹ دھرم لوگ کبھی بھی حق کو سمجھ نہیں سکتے۔ و اللّٰہ اعلم بالصواب۔
Flag Counter