Maktaba Wahhabi

64 - 660
شفایاکسی مشکل کے حل وغیرہ کے لیے پڑھے تواس میں کوئی مضائقہ نہیں،اگریہ بات درست نہ ہوتی تو صحابی رضی اللہ عنہ کے جواب’’شئي القي في روعي‘‘پرضرورآپ صلی اللہ علیہ وسلم اسےزجروتوبیخ فرماتے کہ یہ کیا ہے کہ جو بات دل میں آئے اس پر عمل کرتے پھرو گے؟لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے بحال رکھنا اوراس فعل کو ثابت رکھنا اس پر واضح دلیل ہے کہ یہ بات شریعت کے ہرگز خلاف نہ تھی اورمسئلہ ہذا کی عمومی دلیل: ﴿وَنُنَزِّلُ مِنَ ٱلْقُرْ‌ءَانِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَرَ‌حْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ۙ وَلَا يَزِيدُ ٱلظَّـٰلِمِينَ إِلَّا خَسَارً‌ۭا﴾ (الاسراء:٨٢) ’’اورہم قرآن وہ کچھ نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لیے شفااوررحمت ہےمگرظالموں کے لیے خسارے کے سواکچھ نہیں۔‘‘ بھی ہوسکتی ہے اورشفاسےروحانی وجسمانی ،مادی،معنوی شفاء مرادلی جاسکتی ہے۔تخصیص کی کوئی بھی وجہ نہیں،وجہ یہی ہے کہ جب صحابی رضی اللہ عنہ نے فاتحہ کو دم سمجھ کرپڑھا تواللہ سبحانہ وتعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی اعتراض نہ فرمایا: باقی رہا اسماء الالہیہ کا معاملہ توخود قرآن کریم میں ہے کہ: ﴿وَلِلَّهِ ٱلْأَسْمَآءُ ٱلْحُسْنَىٰ فَٱدْعُوهُ بِهَا﴾ (الاعراف: ۰ ١٨) لہذا اسماء الہیہ میں جس اسم میں بھی قاری کو مشکل حل ہونے کی توقع ہوتواسے کچھ تعدادمقررکرکے(محض اپنی سہولت کی خاطرنہ کراسے لازم سمجھتے ہوئے)پڑھے اورنمازکے بعدبھی پڑھ سکتا ہے کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ نماز کے بعد دعاقبول ہوتی ہےیاکسی اوروقت میں پڑھے توبھی اس میں کچھ حرج نہیں۔ و اللّٰہ اعلم بالصواب آیت کا مفہوم سوال:’’لااكراه في ادين‘‘کے متعلق بحث کریں؟بینواتوجروا! الجواب بعون الوھاب:اسلام تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی تبلیغ وحکمت اورموعظ حسنۃ
Flag Counter