Maktaba Wahhabi

60 - 660
معانی قرآن سوال:ایک مولوی صاحب کہتے ہیں کہ قرآن کے دومعانی ہوتے ہیں ایک ظاہری اوردوسراباطنی۔ظاہری معنی توہرصاحب علم سمجھ سکتا ہےلیکن باطنی کو کسی امام وپیشواکے بغیرنہیں سمجھاجاسکتااس لیے کسی’’امام‘‘کی تقلیدلازمی ہے؟ الجواب بعون الوھاب:قرآن حکیم کے معنی کی ظاہری اورباطنی تقسیم کا مطلب اگریہ ہے کہ ایک معنی وہ ہے جو قرآن کے الفاظ مبارکہ سے لغت کے اعتبارسےسمجھ میں آتی ہےاوردوسری وہ ہے جو اشارۃً یا اقتضاءً یا دلالۃً معلوم ہوتی ہے یعنی اس میں استنباط واستخراج کودخل ہے یا اس میں ان الفاظ کے حقائق شرعیہ (حقائق لغویہ)کا علم ہونا ضروری ہے تو یہ تقسیم درست ہے لیکن ان معانی کو جاننے کے لیے اہل علم کے لیے آخرتقلیدکیونکرضروری ہے؟اہل دنیا کی یہ ذہنیت بن چکی ہے کہ لڑتے ہیں اورہاتھ میں تلوار نہیں،استنباط واستخراج کے لیےاصول وقواعد مستنبط کیے گئے ہیں اصول روایت واصول درایت وضع ہوچکے ہیں ایک صاحب علم کے لیے ان قواعد واصول کو مدنظر رکھ کرمسائل ومعانی کے استخراج میں کوئی بھی مشکل درپیش نہیں آسکتی،دیکھیں فقہ کی کتب میں کتنے ہی مسائل کے اجزاء مرقوم ہیں اورمسائل کی تفریع درتفریع موجود ہےاورتمام مقلدین ان پر آمناوصدقناکہہ کربیٹھے ہیں اوران کی قوت استنباط واستخراج کے قائل ہیں۔ مثلاصاحب ہدایہ وغیرہ۔اب خداراانصاف کے ساتھ بتائیے کہ کیا یہ بھی مقلد ہیں۔ اپنے آپ کو کہتے تومقلد ہیں مگراس قسم کی تفریع اورتخریج کا مقلد سے کیا تعلق؟مقلد کو تو علم ہی نہیں بلکہ اس کا توفرض ہے کہ اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ فرمایاہے باقی اس پراشارۃ یا اقتضاء وغیرہاطریق سے تفرح یا استخراج قطعا اس کے دائرہ عمل سے خارج ہے۔اس طرح حقائق شرعیہ کا اورکتاب وسنت کاپورے انہماک کے ساتھ تتبع اورکتب حدیث کا دل کی چاہت کے ساتھ مطالعہ ہوسکتا ہے اس کے لیے کسی امام یا پیشواء کی تقلید کی کوئی ضرورت نہیں
Flag Counter