Maktaba Wahhabi

393 - 660
طورپرمعلوم ہوتاہے۔ موجودہ اہلحدیث میں سےبھی بعض کایہی خیال ہے لیکن راقم الحروم احقرالعبادکودلائل کے لحاظ سے یہ سمجھ میں آیا ہے کہ میت اگرماں ، باپ میں سے ہوتاان کے لیے ایصال ثواب جائز ہے جیسا کہ صحیح احادیث سےمعلوم ہوتاہے کسی صحابی نے اپنی والدہ کے متعلق دریافت کیا کہ وہ اس کی طرف سےصدقہ کرتوکیااس کا اجراسے ملے گا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایاکہ ہاں اوریہ ارشادقرآن حکیم کی اس آیت کریمہ: ﴿وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَـٰنِ إِلَّا مَا سَعَىٰ﴾ (النجم:٣٩) ’’ہرانسان کےلیے صرف وہی کچھ ہے جس کی اس نے کوشش کی۔ ‘‘ کی مخالفت نہیں کیونکہ اولادخودماں باپ کا کسب ہے اس لیے اولاد کے اعمال کااجروثواب والدین کو مل سکتا ہے کیونکہ اولادکافعل خودوالدین کافعل ہی ہے کیونکہ وہ انہی کی محنت سے پیداہوئی۔ لہٰذا اولادکاکسب بعینہ والدین کاکسب ہی ہے۔ البتہ احادیث سےمعلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص فوت ہوجائےاس پر روزے کی قضاہوتواس کا ولی اس کی طرف سے روزہ رکھےاس طرح کی احادیث میں لفظ ولی زیادہ عموم کا متقاضی ہے اوراس سے کھینچ تان کرکے اگرکسی دوسرے عزیز و قریب کے لیے ایصال کے لیے مستدل بنایاجائے توایساہوسکتا ہےلیکن ہےپھر بھی کھینچ تان لیکن اس سے بھی آگے بڑھ کر اس سے بالکلیہ اجنبی کے لیےایصال ثواب پراستدلال کرنا محض سینہ زوری کی بات ہے البتہ قیاس کیا جائے تواوربات ہےلیکن جولوگ قیاس کے انکاری ہیں توان کے لیے توکوئی حجت نہیں۔ خیرالقرون کے دورمیں ایسی امثلہ نہیں ملتیں کہ کسی اجنبی کے لیے کسی نے ایصال ثواب کوجائز سمجھا ہویااس کے لیے قرآن خوانی کی ہو۔ البتہ اولادکا والدین کے لیے صدقہ کرنا وغیرہا کی امثلہ موجودہیں اس لیے احتیاط اسی میں ہے کہ اجنبی کے لیے ایصال ثواب سے اجتناب کیا جائے اوران کے لیے صرف دعامغفرت وترجم وغیرہ پراکتفاکیاجائے، یعنی جس قدرشریعت میں وارد ہوا ہے اس سے آگے نہ بڑھاجائے۔
Flag Counter