Maktaba Wahhabi

400 - 660
خودبھی استفادہ کرتا ہے؟ الجواب بعون الوھاب:زکوٰۃ کےمصارف(جن پر زکوٰۃ خرچ کی جائے)قرآن کریم نے خودبھی بیان کردیئے ہیں۔ لائبریری ان میں داخل نہیں لہٰذا زکوٰۃ کی رقم لائبریری پرخرچ نہیں کی جاسکتی۔ اگرچہ قرآن کریم نے آٹھ مصارف بیان کیے ہیں ان میں سےایک فی سبیل اللہ بھی ہے اوراگراسےعام رکھا جائے تودینی لائبریری بھی اس کے اندرداخل ہوسکتی ہے، صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ سبیل اللہ کا لفظ عام نہیں، اس لیے اگراسےعام رکھاجائے گاتوباقی سات مصارف ذکرکرنے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔ مثلاًفقراء، مساکین، عاملین علیہا، مئولفۃ قلوبہم، رقاب، ابن سبیل، غارمین یہ سب فی سبیل اللہ کےلفظ میں داخل ہوجاتے ہیں۔ (غورکریں) پھرالگ الگ ذکرکرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ صرف فی سبیل اللہ کا ذکرہوتا باقی سب اس میں ازخودداخل ہوجاتے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فی سبیل اللہ سےمرادعام نہیں بلکہ خاص فی سبیل اللہ مرادہے۔ اس کے بعدیہ معلوم کرناچاہئے کہ فی سبیل اللہ سے مرادکیاہے؟ قرآن حکیم کی اصطلاح میں جیساکہ مولاناآزادرحمۃ اللہ علیہ اوردیگرمحققین نے لکھا ہےوہ سارے کام جوبراہ راست دین وملت کی حفاظت اورتقویت کے لیے ہوں وہ فی سبیل اللہ کےکام ہیں اورچونکہ حفظ وصیانت میں امت کا سب سے ضروری کام دفاع ہے، اس لیےاس کا اطلاق زیادہ تراس پرکیا جاتا ہے پھراگردفاع درپیش ہواورامام وقت اس کی ضرورت محسوس کرےتوزکوٰۃ کی مد سے مددحاصل کی جائے تواس میں خرچ کی جائے گی ورنہ دین وامت کے عام مصالح میں۔ مثلاً قرآن اوردینی علوم کی ترویج اوراشاعت میں مدارس کےاجراءقیام میں دعاۃ اورمبلغین کے قیام وترسیل ، ہدایت وارشادامت کے تمام مفیدوسائل میں اسے صرف کیا جائے گااگرچہ کچھ فقہاء اورمفسرین کی جماعت نے فی سبیل اللہ کی مدکو اتناعام رکھا ہے کہ اس میں مساجد کی تعمیرکنووں کی کھدائی وغیرہ کو اس میں داخل کیا ہے لیکن ہم عرض کرآئے ہیں کہ اسے اتنا عام رکھنا صحیح معلوم نہیں ہوتا تاہم اگرکوئی اسےعام رکھنے پرمصر
Flag Counter