Maktaba Wahhabi

410 - 660
حصہ دیا جائے گا۔ (جب ہاتھ میں آنے کے بعدان پر سال گزرجائے)لیکن اگر وہ ایک ہزارجواس کےپاس ہے وہ ہے پچاس من گندم کی قیمت یعنی اس پر پانچ سوروپیہ قرضہ توہےلیکن آبادی سے اس کوکنکی(گندم)حاصل ہوئی ہے پچاس من جس کی قیمت فی من 20روپیہ کے حساب سے فقط ایک ہزارہوئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ توپھرزکوٰۃ اول دی جائےگی اورقرضہ یہ علیحدہ ہے باقی لین دین دوقسموں کا ہوگا۔ ایک وہ جوزمین کے متعلق ہے مثلاًبیج کا خرچہ ، بیل کے جوڑے کی محنت اورخرچہ ہاریوں کا خرچہ اورمزدوری اورکھادوغیرہ کےاخراجات جیسے لین دین اس سےقطعاً الگ نہیں کرسکتے البتہ کھیتی کو پانی پلانے کے بارے میں جوخرچہ ہوتا ہے شریعت مطہرہ نے اس کے بارے میں زکوٰۃ میں کمی وبیشی رکھی ہے یعنی جس زمین کو پلانے میں کم محنت اورکم خرچہ ہے اس کی پیدائش سے’’عشردسواں حصہ‘‘دینا ہے اورجوزمین سخت مشقت کے ساتھ سیرب کی جاتی ہے اس کی پیدائش سے’‘نصف عشر’‘(بیسواں حصہ)ہے۔ مثلاًجن کی زمینیں بارش کے پانی پرآبادہیں۔ ان کوزمین سیراب کرنے میں کوئی خاص مشقت نہیں اٹھانی پڑتی لہٰذا ان پر’’عشر‘‘(دسواں حصہ ہے)لیکن وہ زمین جن کو پانی کھینچ کراورمشقت کے ساتھ پلایاجاتاہےان کی پیداوارسے20واں حصہ یعنی نصف عشرہے ۔ اپنے ملک میں جو زمینیں چھوٹی نہروں ، واٹرکورسوں یاٹیوب ویل کے ذریعے پلائی جاتی ہے ۔ وہ ساری کی ساری’‘نصف عشر’‘کی فہرست میں آتی ہیں۔ کیونکہ ا س پانی کے حصول میں اگرچہ اتنی مشقت نہیں ہوتی کبھی کبھی کھدائی کرنی پڑتی ہے ۔ لیکن اس پر ٹیکس اورآبیانہ وغیرہ لگتا ہے شریعت مطہرہ نے ہمارے لیے یہ سہولت رکھی ہے کہ ایسی صورتوں میں’’نصف عشر‘‘کی ادائیگی ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس آدمی کو پچاس من گندم حاصل ہوئی وہ اس کا ’’نصف عشر‘‘کی جوکہ ڈھائی من بنتا ہے وہ اداکرے گا باقی جو بھی بچتی ہے۔ مثلاً ساڑھے سینتالیس من وہ چاہے رکھ دے چاہے خرچ کردےوہ اس کی مرضی ہے ۔ مطلب کہ زکوٰۃ اس پر صرف ڈھائی
Flag Counter