Maktaba Wahhabi

73 - 660
((قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين ولعبدي ماسأل’فاذاقال العبدالحمدللّٰه رب العالمين’قال اللّٰه تعالي حمدني عبدي واذاقال الرحمن الرحيم قال اللّٰه تعالي اثني علي عبدي واذاقال مالك يوم الدين مجدني عبدي۔۔۔۔۔۔الخ)) ہرآیت کے آخر میں رب تعالی جواب دیتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ﴿ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ رَ‌بِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ﴾کہہ کر کچھ وقف کیا جائے تاکہ اس کا جواب بھی ہوتا جائے۔علي هذا القياس .﴿ٱلرَّ‌حْمَـٰنِ ٱلرَّ‌حِيمِ﴾پھر﴿مَـٰلِكِ يَوْمِ ٱلدِّينِ﴾اوراس کے بعد﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ۔۔۔۔۔۔الخ﴾اسی طرح احادیث میں یہ بھی بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آیت پڑھنے کے بعد کچھ توقف فرماتے تھے اورپھر دوسری آیت پڑھتے تھے۔ باقی رہا رموزالقرآن یا اوقاف وغیرہ کا ثبوت حدیث شریف میں نہیں ملتا۔ لہذا ان پر عمل کرنے کو لازم یا مندوب ومستحب قرارنہیں دیا جاسکتاالبتہ کچھ مقامات ایسے ہیں جہاں پر کچھ الفاظ کو اگلے کے ساتھ ملاکرپڑھنے سے کچھ غلط معنی کا ابہام پیداہوتا ہے۔مثلا سورۃ النساء(آیت١١٧،١١٨)میں ہے: ﴿إِن يَدْعُونَ مِن دُونِهِۦٓ إِلَّآ إِنَـٰثًا وَإِن يَدْعُونَ إِلَّا شَيْطَـٰنًا مَّرِ‌يدًا ﴿١١٧﴾ لَّعَنَهُ ٱللَّهُ ۘ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيبًا مَّفْرُ‌وضًا﴾ (النساء:١١٧’١١٨) ’’اللہ کو چھوڑ کرپکارتے ہیں تو بتوں کو اورسرکش شیطان کو جس پر اللہ نے لعنت کی ہے جس نے کہا تھا کہ میں تیرے بندوں میں سے ایک حصہ مقررکرلوں گا۔‘‘ اس آیت میں ظاہر ہے کہ لعنه اللّٰه میں اللہ تعالی کی طرف سے شیطان پر لعنت بھیجی گئی ہے لیکن آگے’’وقال الخ‘‘شیطان کا مقولہ ہے اگر کوئی شخص لعنہ اللہ پر کچھ توقف نہ کرے بلکہ ملاکرپڑھتا جائے تو غلطی سے یہ ابہام ہوسکتا ہےکہ’’وقال کا قائل بھی نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ لفظ اللہ ہے‘‘جو کہ لعنه اللّٰه میں ہے اوریہ قطعاً غلط ہے اوراسی طرح کچھ دیگر بھی
Flag Counter