Maktaba Wahhabi

85 - 660
بھی اس کو سمجھ سکتا ہےبس اس طرح چاند کی رفتاربھی معلوم ہےپھر اگر انسان کوئی ایسی سواری ایجاد کردے جس کی رفتارچاندسےزیادہ تیزہوتووہ چاندکو پہنچ سکتی ہے۔ تیز سےتیز سواریاں آج ہرروزمشاہدہ میں آرہی ہیں۔راکٹ کو توچھوڑواس کی رفتاربہت تیز ہے لیکن آج کل کے ہوائی جہازجوایک گھنٹہ کے اندرہی ہزارمیل سے بھی زیادہ کافاصلہ طے کرتے ہیں تواس سے اندازہ لگائیں کہ اللہ نے انسان کو کتنی قدرت عطافرمائی ہےاوریہ سب کچھ اس ارشادکاظہورہےجوابوناآدم علیہ السلام کی پیدائش کے وقت رب تعالی نےفرشتوں کو فرمایاتھا: ﴿إِنِّىٓ أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾ (البقرة: ٣۰) ’’بے شک میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔‘‘ پھر جب اللہ تعالی نے انسان کو اتنی قدرت عطافرمائی ہے تو اس میں تعجب اورحیرانگی کی کیا بات ہے کہ انسان ایسی تیز رفتارسواری ایجادکردے جوچاندتک پہنچ جائے۔ گزشتہ اوراق میں یہ آیت بھی گزرچکی ہےجس میں یہ حقیقت بیان ہے کہ عالم بالااورعالم ارضی کی ہرچیزجومشاہدہ میں آئے وہ انسان کے تابع بنائی گئی ہے یعنی چاند وغیرہ پرانسانی رسائی ممکن ہے(قرآن کریم کے مطابق)پھر خوامخواہ انکارکرکے جگ ہنسائی کا کیوں موقع دیا جائے۔بلکہ یہ تو خودقرآن اورحضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پربڑی دلیل ہے۔ باقی یہ بات کہ قرآن میں ہے کہ اللہ تعالی جب چاہے اوپر سے آسمان کا ٹکڑا عذاب کی خاطر گرادے تواس کو سمجھنا کوئی مشکل بات نہیں ہے،کیونکہ ہمارے اوپر بے شمار سیارےاورتارے وغیرہ ہیں جن میں کچھ ستارے زمین سے بھی بڑے ہوتے ہیں اورظاہر ہے کہ ایسی چیزیں زمین کے اوپر چھت کاکام دیتی ہیں پھر ان سے کوئی ٹکڑاآکرزمین پر گر ےتووہ بھی آسما ن سے ہی آیا یعنی عالم بالایااوپرکی دنیا سےاورایسے گرے ہوئے ٹکڑے دنیا کے مختلف ممالک میں مشاہدہ میں آئے ہیں۔ اوردنیا کی مختلف جگہوں پر ایسے ٹکڑے گرےتھے اورزورسےگرنے کی وجہ سے زمین میں
Flag Counter