Maktaba Wahhabi

122 - 421
دریغ اس کے قصاص میں قتل کر دیا جاتا، مسلمان والنٹیروں کو گھر بیٹھے جو تنخواہ ملتی تھی، ذمی بھی اس میں برابر کے شریک ہوتے۔ بیت المال سے مسلمانوں کو جو رعایت ملتی وہی رعایت ایک ذمی کو بھی ملتی تھی۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حیرہ کی فتح میں اہل شہر کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا، اس میں یہ الفاظ تھے: "اور میں نے ان کو یہ حق دیا کہ اگر کوئی بوڑھا شخص کام کرنے سے معذور ہو جائے یا اس پر کوئی مصیبت آ جائے، یا وہ پہلے دولت مند تھا پھر غریب اور قلاش ہو گیا اور اس وجہ سے اس کے ہم مذہب اس کو خیرات دینے لگیں تو اس کا جزیہ معاف کر دیا جائے گا، اور اس کو اور اس کے اہل و عیال کو مسلمانوں کے بیت المال سے نفقہ دیا جائے گا جب تک وہ دارالاسلام میں رہے، لیکن اگر وہ مسلمانوں کا ملک چھوڑ کر دوسرے ملک چلا گیا تو پھر مسلمانوں پر اس کا نفقہ واجب نہ ہو گا۔" (کتاب الخراج لابی یوسف: ص 85) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے عہد خلافت میں اس اصول کو اپنائے رکھا۔ چنانچہ مشہور واقعہ ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بوڑھے یہودی کو بھیک مانگتے دیکھا اور جب آپ کو پتہ چلا کہ وہ جزیہ ادا کرنے کے لیے بھیک مانگ رہا ہے تو آپ نے نہ صرف اس کا بلکہ اس جیسے تمام معذوروں کا بیت المال سے وظیفہ مقرر کر دیا اور جزیہ معاف کر دیا، اور یہ بھی فرمایا: "بخدا! یہ بات عدل و انصاف کے منافی ہے کہ ان لوگوں کی جوانی سے تو ہم فائدہ اٹھائیں اور بڑھاپے میں ان کو نکال دیں۔" (کتاب الخراج: ص 150۔151) تاریخ کے اوراق اس بات کی بھرپور شہادت دیتے ہیں کہ مسلمانوں نے ذمیوں کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک کیا اور ان کو وہی مراعات دیں جو وہ مسلمانوں کو دیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ذمیوں نے بھی ہر موقع پر خود اپنی ہم مذہب حکومتوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کی مدد کی یہاں تک کہ جاسوسی بھی کی۔ مسلمان لشکروں کی خوراک اور رسد مہیا کرنے اور دوسرے کئی طریقوں سے مدد کی۔ ہر قسم کے راز مسلمانوں تک پہنچائے اور تاریخ کے رپورٹر بتاتے ہیں کہ جنگ یرموک میں شرکت کے لیے جب مسلمانوں کو
Flag Counter