Maktaba Wahhabi

125 - 421
میں قتل کر دیا۔ (نصب الرایہ: 3/360) یہ صرف ایک اسلامی ریاست کا خاصہ ہے وگرنہ اور کسی ریاست میں ایسا نہیں ہوتا۔ ایک مرتبہ آپ نے عدی بن ارطاط کو لکھا کہ ذمیوں کے ساتھ نرمی اور حسن سلوک کا برتاؤ کرو۔ ان میں جو بوڑھا یا نادار ہو جائے کفالت عامہ کے تحت اس کی گذران دو، اور اگر اس کا کوئی رشتہ دار ہو تو اسے اس کی کفالت کا حکم دو۔ جس طرح تمہارا کوئی غلام بوڑھا ہو جائے یا بڑھاپے نے اسے معذور کر دیا ہو تو اسے آزاد کرنا پڑے گا یا پھر مرتے دم تک اس کی کفالت کرنی پڑے گی۔ (طبقات ابن سعد: 5/280) شاہی خاندان سے جب آپ نے مسلمانوں کی غصب شدہ املاک چھین کر اصل مالکوں کو واپس کیں تو اس وقت ذمیوں کے مغصوبہ زمینیں بھی واپس دلائیں۔ اس سلسلہ میں ایک ذمی نے دعویٰ دائر کیا کہ عباس بن ولید نے جو شاہی خاندان کا چشم و چراغ ہے، میری زمین پر غاصبانہ قبضہ کر لیا ہے۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے عباس سے جواب دعویٰ کے لیے کہا۔ اس نے کہا کہ یہ زمین مجھے ولید نے جاگیر میں دی ہے اور میرے پاس اس کی دستاویز موجود ہے۔ ذمی نے اپنے دعویٰ کا جواب سن کر کہا: "امیر المومنین! میں آپ سے کتاب کے مطابق اس کا فیصلہ چاہتا ہوں۔" آپ نے فرمایا: "کتاب اللہ ولید کی سند پر مقدم ہے۔" چنانچہ عباس بن ولید سے زمین چھین کر ذمی کو واپس لوٹا دی۔" (سیرۃ عمر بن عبدالعزیز: ص 104، لابن جوزی، البدایہ والنہایہ: 9/213) آپ کا حکم تھا کہ کوئی مسلمان کسی ذمی کے مال پر دست درازی نہ کرے، چنانچہ اس ہدایت کے اثرات تھے کہ کوئی مسلمان کسی غیر مسلم کے مال، زمین اور عزت و آبرو پر دست درازی نہ کر سکتا تھا۔ جو ایسا کرتا اس کو قرار واقعی سزا ملتی تھی۔ چنانچہ ایک مرتبہ ایک مسلمان ربیعہ شودی نے ایک سرکاری ضرورت کے تحت ایک نبطی کا گھوڑا بیگار میں پکڑ لیا اور اس پر سواری کی۔ یہ ایک معمولی بات تھی۔ آپ سے پہلے بھی ایسا ہو جاتا تھا۔ آج بھی گھوڑے کیا عوام کی بسیں اور کاریں اپنے جلسوں کی رونق بڑھانے کے لیے بیگار میں پکڑ لی جاتی ہیں اور ان کو کئی کئی روز تک استعمال میں لایا جاتا ہے۔ عوام روتے
Flag Counter