Maktaba Wahhabi

126 - 421
رہتے ہیں اور حکومت کے کارندوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ کیونکہ سرکاری عہدے داروں کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ بہرے ہوتے ہیں، عوام کے رونے اور چلانے کی آواز انہیں سنائی نہیں دیتی۔ وہ "یک چشم" بھی ہوتے ہیں کہ انہیں صرف اپنا آپ دکھائی دیتا ہے عوام دکھائی نہیں دیتے، لیکن عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو جب اس بات کا پتہ چلا تو اس عہدے دار کو چالیس کوڑے لگوائے تاکہ دوسروں کے لیے باعث عبرت ہو۔ (طبقات ابن سعد: 5/276) تاریخ کے اوراق سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے عہد خلافت میں ذمیوں کے ساتھ اتنی نرمی برتی گئی کہ اس سے عام لوگوں کو کئی نقصانات اٹھانے پڑے۔ آپ کے عہد خلافت میں غلہ کا نرخ گراں ہو گیا۔ ایک شخص نے آپ سے گرانی کا سبب پوچھا، فرمایا: "پہلے خلفاء ذمیوں کو جزیہ کی وصولی میں تکالیف دیتے تھے، اس لیے وہ جس نرخ پر بھی ہو سکتا غلہ فروخت کر دیتے تھے، اور میں ہر شخص کو صرف اتنی تکلیف دیتا ہوں جس کو وہ برداشت کر سکے، اس لیے اب ہر ذمی جس طرح چاہتا ہے فروخت کرتا ہے۔ (کتاب الخراج لابی یوسف: ص 76) عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا محبت و احترام کی بنیاد پر ذمیوں سے سلوک کرنا اسلام کے اصولوں کے عین مطابق تھا، اور آپ سے ان کے حسن سلوک کی بنیادیں محبت و احترام پر اٹھائی گئی تھیں۔ (تاریخ الشعوب الاسلامیہ: 1/184) آپ کو یہ بات پسند تھی کہ غیر مسلم اور ذمی ایک اسلامی حکومت میں رہ کر اپنے آپ کو بالکل محفوظ و مصئون سمجھیں۔ حجاج بن یوسف ثقفی نے اہل ذمہ پر بڑی سختی کی ہوئی تھی۔ اس نے یہ قانون بنایا ہوا تھا کہ وہ ذمیوں کے غلہ کے گوداموں کو سربمہر کروا دیتا تھا اور اس وقت تک سیل نہ کھولتا تھا جب تک وہ جزیہ ادا نہ کرتے۔ لیکن سیدنا عمر بن عبدالعزیز کو یہ بات ناپسند تھی۔ وہ کسی صورت نہیں چاہتے تھے کہ ذمیوں کے وقار اور احترام کو ٹھیس لگے۔ اہل ذمہ کے ساتھ اس حسن سلوک کو دیکھ کر کئی شہروں کے کوتوال آپ کی اجازت کے بغیر ہی اہل ذمہ کے مظالم کو رفع کر دیا کرتے تھے، چنانچہ ایک روز آپ نے
Flag Counter