Maktaba Wahhabi

127 - 421
کوتوال شہر عمرو بن مہاجر کو بلوایا۔ لیکن وہ موجود نہ تھا۔ پھر جب وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اس سے پوچھا: "کہاں تھے؟" اس نے جواب دیا: میں اہل کتاب کے مظالم رفع کرنے کے لیے باہر گیا ہوا تھا۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس کا یہ عذر سن کر اس سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ (سیرۃ ابن عبدالحکم: ص 164) عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ اپنے گورنروں کو ہر وقت یہی تلقین کرتے رہتے تھے کہ ذمیوں کو تمہارے ہاتھوں کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ چنانچہ آپ نے عبدالرحمٰن بن نعیم کو لکھا کہ جس گرجا گھر، آتش کدہ یا عبادت خانہ پر تم سے صلح کر لی گئی ہے اس کو ہرگز منہدم نہ کرو۔ (طبری: 5/364) اور ابن جوزی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جب بنو امیہ کے امراء نے سیاحت کا ارادہ کیا تو آپ نے ان سے یہ عہد لیا کہ وہ ذمیوں کو نہیں ستائیں گے اور نہ قوم کے کسی شخص کو تنگ کریں گے۔ (سیرۃ ابن جوزی: ص 77) عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ایک نہایت دین دار اور پابند شریعت شخص تھے۔ اس وجہ سے ان کی نگاہ سے یہ بات اوجھل نہ تھی کہ دنیا میں عبادت خانوں کا باقی رہنا لوگوں کے لیے باعث صلاح و فلاح ہے۔ وہ عبادت خانے خواہ کسی دین و ملت کے ہوں کیونکہ کوئی مذہب بھی لوگوں کو بداخلاقی اور بدتہذیبی نہیں سکھاتا بلکہ عبادت خانوں ہی میں جا کر لوگوں کو اخلاق اور ان کی تہذیب میں حسن اور نکھار پیدا ہوتا ہے، اور ان کی معاشرت درست ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ دو خارجیوں نے آ کر آپ سے ذمیوں کے بارے میں استفسار کیا کہ "انہیں طاقت سے زیادہ تکلیف دی جا سکتی ہے؟" آپ نے جواب میں فرمایا: "کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت کے اندر تکلیف دیتا ہے تو ہم کون ہیں جو ان کو ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف دیں؟" انہوں نے پھر پوچھا گیا کہ اگر اہل ذمہ کے عبادت خانے یعنی گرجے وغیرہ ڈھا دئیے جائیں تو کیا حرج ہے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔" اس نے بہت اصرار کیا لیکن آپ نے اس کی یہ بات ہرگز نہیں مانی۔ (سیرۃ ابن عبدالحکم: ص 174) گذشتہ خلفاء نے ذمیوں کے مذہبی حقوق بھی پامال کیے ہوئے تھے۔ آپ نے
Flag Counter