Maktaba Wahhabi

134 - 421
ایک مقدس امانت کی ہے۔ انسان اللہ تعالیٰ کا نائب اور خلیفہ ہونے کی حیثیت سے ان اشیاء میں تصرف کا حق رکھتا ہے لیکن اس سلسلہ میں اسے مالک حقیقی (اللہ تعالیٰ) کی رضا اور اس کا منشاء ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے کیونکہ اس نے ہی اس کو پیدا کیا، بنایا اور بڑھایا۔ جس نے ابرنیساں کی ایک بوند کو سیپ میں بند کر کے پالا اور پرورش کیا، یہاں تک کہ وہ قطرہ باراں کا آب دار قیمتی موتی ہو گیا۔ انسان کی ملکیت یہ ہے کہ اس کو اپنے کام میں لا سکتا ہے، اس سے نفع اٹھا سکتا ہے، کسی دوسرے انسان کو روکنے کا حق نہیں پہنچتا کیونکہ اس نے سمندر میں غوطہ زن ہو کر اس کو نکالا ہے یا کوہ کن نے پہاڑ کی چٹان پھاڑ کو یہ موتی اور لعل وہاں سے برآمد کیا۔ ان دونوں کو حق ہے کہ آپس میں تبادلہ کر لیں۔ اس کا نام خریدوفروخت اور انتقال ملکیت ہے، لیکن حقیقی ملکیت اللہ تعالیٰ کی ہے۔ نائب خدا اور خلیفۃ اللہ ہونے کی حیثیت سے انسان کے ذمہ دنیا و آخرت کی فلاح و صلاح کا حصول ہے، اور اس کائنات کی ہر شے کا مقصود وجود انسان کو اپنے مقصد اور تگ و تاز زندگی میں کامیابی کے مواقع فراہم کرنا ہے، اس لیے حق ملکیت کا حصول انسان کا مقصد زندگی نہیں بلکہ مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ قرآن حکیم میں فرمایا: (أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِيَامًا) (النساء: 5) "(اور کم عقلوں کو اپنے وہ مال نہ دو) جن کو اللہ نے تمہاری گذر اوقات کا ذریعہ بنایا ہے۔" آیت کے اس ٹکڑے میں ایک طرف تو مال کی اہمیت بتائی اور واضح کیا کہ انسانی معاش میں اس کا بڑا دخل ہے، لہٰذا اس کی حفاظت کا داعیہ قلوب میں پیدا کیا گیا۔ نہ صرف حفاظت کا داعیہ پیدا کیا گیا بلکہ اس کی حفاظت کو بھی ضروری قرار دیا اور اس کا ضیاع گناہ قرار دیا۔ اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے اگر کوئی شخص قتل ہو جائے تو وہ شہید ہے جیسا کہ جان کی حفاظت کرتے ہوئے قتل ہونے پر شہادت کے اجر کا وعدہ کیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مال کی حفاظت کرتے ہوئے جو شخص مقتول ہو
Flag Counter