Maktaba Wahhabi

135 - 421
جائے وہ شہید ہے۔" (بخاری: 1/337، مسلم: 1/81) ایک اور روایت میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نیک آدمی کے لیے اس کا اچھا اور پاکیزہ مال بہترین متاع حیات ہے۔" (مشکوٰۃ: ص 326) چونکہ تمام انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ایک ہی وحدت کی اکائیاں ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بھی چند افراد یا کسی ایک طبقہ کی ملک نہیں ہونی چاہیں، بلکہ تمام انسانی افراد کو استفادہ کا موقع ملنا چاہیے، اور محروم افراد کے ساتھ ہمدردی اور اخوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں بھی اس مال سے استفادہ کا موقع دیا جائے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے، اور اللہ کو اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ پسندیدہ شخص وہ ہے جو اس کے عیال کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے۔" (مشکوٰۃ: ص 324، مجمع الزوائد: 8/250) انسان کو اگرچہ مال اور دیگر اشیاء پر ملکیت کے حقوق دئیے گئے لیکن یہ حقوق بطور آزمائش اور امتحان دے دئیے گئے ہیں، اور ظاہر ہے کہ آزمائش اسی صورت میں ہوتی ہے جب انسان کو اختیار اور اپنی پسند و ناپسند کے مطابق عمل کی آزادی حاصل ہو۔ البتہ اس حق اور اختیار کو اس طرح محدود کیا گیا کہ اس کی آزادی ملکیت سے دوسرے افراد کی آزادی مجروح نہ ہو، اور اس آزادی سے معاشرہ میں فساد اور فتنہ برپا نہ ہو۔ قرآن و سنت کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اموال و املاک پر افراد کو نجی ملکیت کا حق حاصل ہے، ورنہ قانون وراثت، نظام زکوٰۃ و عشر و صدقات، نظام نفقات اور قانون وصیت وغیرہ سب بیکار ہو جائیں، کیونکہ ان تمام احکام پر عمل اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب اموال و املاک انسان کی ذاتی ملکیت میں ہوں۔ تاہم یہ مالکانہ حقوق مطلق نہیں بلکہ مشروط ہیں۔ اسلام نے انسان کو نجی ملکیت پر جو حقوق دئیے ہیں وہ حسب ذیل ہیں: (1) ہر انسان اپنی زیر ملکیت شے کو اپنے یا دوسرے انسانوں کے فائدے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ ان اشیاء میں ترمیم و اضافہ عمل پیدائش کے ذریعہ کر سکتا ہے۔ اس کا یہ حق منقولہ و غیر منقولہ، ذی روح اور غیر ذی روح ہر طرح کی
Flag Counter