Maktaba Wahhabi

136 - 421
املاک اور اشیاء پر ہوتا ہے۔ انسان نئی ٹیکنالوجی اور علم کی بنیاد پر ان اشیاء میں جدت بھی پیدا کر سکتا ہے۔ (2) جو اشیاء یا جاندار انسان کی نجی ملکیت میں ہیں ان میں اضافہ کرنا اور نفع کمانا انسان کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ اپنی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کو وہ کرایہ پر دے سکتا ہے۔ وہ ذاتی مال سے ذاتی کاروبار کر سکتا ہے تاکہ اس سے وہ نفع حاصل کرے۔ بعض مفکرین انسان کی ذاتی ملکیت کا حق تو تسلیم کرتے ہیں لیکن نفع حاصل کرنے کی غرض سے اس کو کاروبار میں لگانے کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ ایک کم عقلی کی بات ہے۔ کاروبار میں نفع و نقصان دونوں کا رسک (Risk) ہے۔ نقصان کی صورت میں صاحب مال اپنے مال اور محنت دونوں سے یک قلم محروم بھی ہو سکتا ہے، لیکن اگر مال خرچ کر کے اور شبانہ روز محنت کر کے اسے نفع اور فائدہ ہو تو یہ بھی اس کا حق بنتا ہے۔ (3) اپنے اس مال سے ہر شخص شراکت کے ذریعہ بھی نفع کما سکتا ہے۔ شراکت سے مراد ایسا پیداواری یا کاروباری عمل ہے جس میں دو یا دو سے زائد افراد متعین سرمایہ کے ساتھ نفع کے حصول اور نقصان کی ذمہ داری برداشت کرنے کے لیے اکٹھے ہوں اور نفع و نقصان کی شرح کا تعین حصہ داران کے لیے پہلے سے طے ہو۔ انسان کا حق تملیک اس حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے جو امام احمد رحمہ اللہ نے روایت کی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح کرنا طے ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: "کیا تمہارے پاس کچھ ہے؟" سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ کچھ نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: "وہ زرع کہاں ہے جو میں نے فلاں روز آپ کو دی تھی۔" سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ وہ میرے پاس موجود ہے، چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لا کر دی۔ (ابوداؤد، رقم: 2126) اس حدیث سے پتہ چلا کہ وہ زرہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ملکیت تھی۔ اسی طرح کسی علمی اور ادبی کام کے بھی حقوق ملکیت ہوتے ہیں، نئی ایجادات
Flag Counter