Maktaba Wahhabi

195 - 421
ہو اور وہ اس کے مطابق فیصلے کرتا ہو اور عمل کرتا ہو۔" (بخاری: 1/39، مسلم: 6/97) شریعت کے ان دلائل کی روشنی میں تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ لوگوں میں حق و صداقت اور عدل و انصاف کو قائم کرنے کے لیے قضا مشروع ہے۔ یہ قضا دین کا ایک مستقل شعبہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس دنیوی حیات میں مختلف معاملات میں لوگوں کے مابین فیصلے کیے۔ قرآن حکیم کی مختلف آیات سے پتہ چلتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا ایک مقصد یہ بھی بیان فرمایا گیا ہے کہ وہ دنیا میں عدل و انصاف کو فروغ دیں تاکہ ظلم و جور میں پسے ہوئے لوگوں کو سکھ اور امن و چین کا سانس لینا نصیب ہو۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا داؤد علیہ السلام کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا: "اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ (حاکم) بنایا، پس تم لوگوں میں حق و انصاف سے فیصلہ کرتے رہنا اور نفسانی خواہشات کی پیروی نہ کرنا (کیونکہ اگر تم ایسا کرو گے) وہ تمہیں اللہ کے راستہ سے بھٹکا دے گی، بےشک جو لوگ اللہ کے راستہ میں بھٹکتے ہیں، ان کے لیے سخت اور شدید عذاب ہے، اس لیے کہ وہ روز حساب کو بھولے ہوئے ہیں۔" (ص: 26) اس آیت کی تفسیر میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یعنی خدا نے تم کو زمین میں اپنا نائب بنایا لہٰذا اس کے حکم پر چلو اور معاملات کے فیصلے عدل و انصاف کے ساتھ شریعت الٰہی کے موافق کرتے رہو، کبھی کسی معاملہ میں خواہش نفسانی کا ادنیٰ شائبہ بھی نہ آنے پائے کیونکہ یہ چیز آدمی کو اللہ کی راہ سے بھٹکا دینے والی ہے، اور جب انسان اللہ کی راہ میں بہکا تو پھر ٹھکانہ کہاں؟ "عموماً خواہشات نفسانی کی پیروی اسی لیے ہوتی ہے کہ آدمی کو حساب کا دن یاد نہیں رہتا، اگر یہ بات مستحضر رہے کہ ایک روز اللہ کے سامنے جانا اور ذرہ ذرہ عمل کا حساب دینا ہے تو آدمی کبھی اللہ کی مرضی پر اپنی خواہش کو مقدم نہ رکھے۔ ممکن ہے کہ "یوم حساب" کا تعلق " لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ" کے ساتھ
Flag Counter