Maktaba Wahhabi

196 - 421
ہو، " نَسُوا" کے ساتھ نہ ہو یعنی اللہ کے احکام بھلا دینے کے سبب سے ان پر سخت عذاب ہو گا حساب کے دن۔ (فوائد عثمانی: ص 606) سیدنا داؤد علیہ السلام کو خلافت الٰہی کی ذمہ داریاں سپرد کرنے کے ساتھ ہی سب سے پہلا فرض جو ان پر عائد فرمایا، وہ عدل کا قیام ہے یعنی لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلے کرنا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک اسلامی ریاست کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ ملک میں اسلامی نظام عدل کو قائم کرے، اور اسلامی اصولوں کے مطابق ایک ایسی عدلیہ قائم کرے جو لوگوں کے مابین عدل و انصاف کے قیام میں ممدومعاون ہو۔ یہ شے اسلامی ریاست کے سربراہ کے لیے تو فرض عین کا درجہ رکھتی ہے لیکن عوام کے لیے یہ فرض کفایہ کا درجہ رکھتی ہے۔ اگر ملک میں لوگوں کو عدل و انصاف مہیا کرنے کے لیے عدالتیں قائم نہ ہوں یا قائم تو ہوں لیکن اسلامی عدل و انصاف کے مطابق فیصلے نہ کر رہی ہوں اور لوگوں کو انصاف مہیا نہ کر رہی ہوں تو پوری امت گنہ گار ہو گی۔ لوگوں میں عدل و انصاف کو قائم کرنے کے لیے اور مختلف قسم کے جرائم کو بیخ و بن سے اکھاڑنے کے لیے محکمہ قضا (عدلیہ) کا قیام ضروری ہے بلکہ بقول علامہ کاسانی رحمہ اللہ فرض ہے تاکہ وہ عدل گستری کے فریضہ کو بطریق احسن ادا کر سکے۔ عدلیہ کے ذمہ یہ فرض ہے کہ وہ عدل کو پھیلائے، ظلم و جور کو مٹائے، لوگوں کو حق سے تجاوز کرنے سے روکے، حدود شریعت کی حفاظت کروائے اور لوگوں کو سنت کے طریقہ پر چلنے کی تلقین کرے۔ قضا کا معنی شریعت میں یہ ہے کہ کسی حاکم وقت کا وہ فیصلہ جو اس نے کسی ایسے معاملے میں دیا ہو جو اس کے نزدیک ثابت ہو چکا ہو۔ چنانچہ جو شخص یہ فیصلے کرتا ہے اس کو قاضی (اور موجودہ دور میں حج) کہتے ہیں، اور منصب قضا کا مطلب ہے مقدمات کا نبٹانا، لوگوں کے مابین جھگڑوں کو ختم کرنا۔ چنانچہ فقہاء کے نزدیک قضا سے مراد دو یا دو سے زیادہ فریقوں کے مابین اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اور شریعت اسلامیہ کے مطابق فیصلہ کرنا اور ان کا جھگڑا ختم کرا دینا ہے۔ (تبصرۃ الاحکام: 1/12) ایک اسلامی حکومت میں نظام قضا کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یہ ارشاد خداوندی کے مطابق ایک محکمہ فریضہ اور ایک ایسی سنت ہے جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین
Flag Counter