Maktaba Wahhabi

197 - 421
عمل پیرا ہوتے رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو قاضی مقرر فرمایا اور کہا: (اقض بين الناس فاني في شغل) "تم لوگوں کے درمیان فیصلے کرو کیونکہ میں دوسرے کاموں میں مشغول ہوں۔" سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نظام قضا کو نہایت مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر قائم کیا۔ وہ آزادی اور مساوات سے بےحد محبت کرتے تھے جس کا آسان سا ثبوت یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کو کمزوروں اور محتاجوں کی سطح پر رکھتے تھے۔ چنانچہ سب سے پہلا خطبہ جو انہوں نے مسجد نبوی میں لوگوں کے سامنے دیا اس میں صاف لفظوں میں فرمایا: "خدا کی قسم! تمہارا ہر کمزور آدمی میرے نزدیک سب سے قوی ہے تاآنکہ میں اس کے لیے اس کا حق وصول نہ کر لوں، اور تمہارا ہر طاقتور آدمی میرے نزدیک سب سے کمزور ہے تاآنکہ میں اس سے حق وصول نہ کر لوں۔" سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس خطبہ میں نظام قضا (عدلیہ) کی اہمیت اور غرض و غایت بھی بیان کر دی گئی، چنانچہ جب تک نظام قضا قائم رہے گا اس وقت تک زمین و آسمان بھی قائم رہیں گے، حکومتیں بھی اسی وجہ سے قائم رہتی ہیں کیونکہ کفر اور حکومت جمع ہو سکتی ہے لیکن حکومت اور ظلم اکٹھا نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے ضروری ہے کہ ہر حکومت میں اور خصوصی طور پر ایک اسلامی اور مسلمان حکومت میں نظام قضا نہایت مضبوط بنیادوں پر استوار ہو، اور اس محکمہ کے کارندوں اور قاضیوں میں وہ تمام صفات موجود ہوں جو اسلام کا تقاضا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاضی کے منصب کو ان نعمتوں میں سے قرار دیا ہے جن کے حصول کے لیے کسی پر رشک کیا جا سکتا ہے۔ بخاری میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "صرف دو چیزیں ایسی ہیں جن میں حسد (رشک) کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ شخص جس کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا ہو اور حق کے راستہ میں اس کو خرچ کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائی، اور دوسرا وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے حکمت و دانش سے نوازا، وہ اس کے مطابق فیصلے بھی کرتا
Flag Counter