Maktaba Wahhabi

25 - 421
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ تو 14 سو سال پرانا ہے۔ مؤرخ بریڈلے برٹ Breadelay Birt نے اپنی کتاب میں ایک واقعہ غیاث الدین کا نقل کیا ہے جو پہلے تو بنگال کا گورنر تھا لیکن بعد میں اس نے خود مختار حکومت قائم کر لی تھی۔ لکھا ہے کہ ایک روز غیاث الدین تیر اندازی کی مشق کر رہا تھا۔ اتفاق سے اس کے تیر سے ایک بیوہ کا اکلوتا بیٹا زخمی ہو گیا۔ بیوہ کو معلوم نہیں تھا کہ یہ تیر بادشاہ نے چلایا ہے۔ وہ قاضی کے پاس شکایت لے کر گئی۔ قاضی نے اپنی فراست سے اندازہ لگایا کہ یہ تیر بادشاہ کا ہی چلایا ہوا تھا۔ وہ دیر تک متذبذب رہا کہ بادشاہ کے خوف اور اللہ کے خوف میں سے کس کو ترجیح دے۔ بالآخر اللہ کا خوف قاضی پر غالب آ گیا اور اس نے بادشاہ کو جواب دہی کے لیے سمن جاری کر دیے۔ بادشاہ کو جونہی سمن پہنچے تو وہ بلا کسی تامل اور پس و پیش کے قاضی کی عدالت کی طرف روانہ ہوا، لیکن اس نے اپنے کپڑوں میں ایک چھوٹی سی تلوار بھی چھپا لی، قاضی صاحب نے عدالت میں بادشاہ کا کسی قسم کا کوئی احترام نہیں کیا بلکہ ملزموں کی طرح اس عورت کے سامنے کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔ معاملہ کی جانچ پڑتال میں یہ ثابت ہو گیا کہ وہ تیر واقعی بادشاہ کا چلایا ہوا تھا۔ قاضی نے بادشاہ کو حکم دیا کہ وہ اس بیوہ عورت کو معقول مالی معاوضہ دے کر اپنا قصور معاف کرائے۔ بادشاہ غیاث الدین نے بے چوں و چرا قاضی صاحب کے اس حکم کی تعمیل کی اور بیوہ عورت کو ایک بڑی رقم پیش کر کے اس سے اپنا قصور معاف کرایا۔ مقدمہ ختم ہونے کے بعد قاضی صاحب اپنی کرسی عدالت سے اٹھ کر بادشاہ کے سامنے باادب کھڑے ہو گئے۔ بادشاہ نے فوراً انہیں اپنے سینے سے لگا لیا اور وہ تلوار ان کو دکھائی جو وہ اپنے کپڑوں میں چھپا کر لایا تھا، اور کہا: "یہ تلوار میں اس لیے لایا تھا کہ اگر تم میرے اس مقدمہ میں شریعت کے حکم سے ذرا بھی روگردانی کرو گے تو میں تمہارا سر اڑا دوں گا، لیکن تم نے شریعت کی پاس داری کرتے ہوئے اپنا فیصلہ صادر کرنے میں کوئی خوف نہیں کیا، اس لیے تم انتہائی اعزاز کے مستحق ہو۔ (DACCA: The Romance of one Eastern Copital, P.55-56) مختصر یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بلند معیار انسانی حقوق کا چارٹر دنیا کے
Flag Counter