Maktaba Wahhabi

275 - 421
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت نہیں دیتے؟ انہوں نے کہا: "رہنے دو، ہم کو زیادہ دفعہ سلام کریں گے۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: "السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے پھر بہت آہستہ سے جواب دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: "السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔" پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹ گئے اور سعد رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے گئے اور کہا: "یا رسول اللہ! میں نے آپ کا سلام سن لیا تھا اور آپ کو قصداً آہستہ جواب دیا تاکہ آپ زیادہ بار سلام کریں۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ چلے گئے۔ (سنن ابی داؤد، رقم: 5185) گھر میں بغیر اجازت داخل ہونا تو بہت بڑی بات ہے، اسلام نے تو کسی کے گھر میں جھانکنے کی بھی اجازت نہیں دی۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "اگر کوئی شخص بغیر اجازت کے تمہارے گھر میں جھانکے اور تم لاٹھی سے اس کی آنکھ پھوڑ دو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہے۔" (بخاری، رقم: 6902، مسلم، رقم: 2158، مسند احمد، رقم: 7311، سنن نسائی، رقم: 4861) اس سلسلہ میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اگر گھر کا دروازہ بند ہو تو اس کی جھریوں میں سے اندر جھانکنا ممنوع ہے، اور اگر گھر والے نے جھانکنے والی کی آنکھ تیر یا کسی لکڑی سے پھوڑ دی تو اس پر قصاص یا دیت نہیں ہے۔" (فتح الباری: 14/238) علامہ عینی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ "جھانکنے والے کی آنکھ پھوڑنے کی اجازت اس صورت کے ساتھ مخصوص ہے جب وہ کسی کے گھر میں قصداً جھانکے، اور اگر اس کی اتفاقاً نظر پڑ جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔" (عمدۃ القاری: 22/239) جب اسلام نے بغیر اجازت گھروں میں داخل ہونے کی ممانعت کر دی تو مسلمانوں کو یہ مشکل پیش آئی کہ مدینہ سے مکہ کے راستہ میں مختلف جگہوں پر رفاہ عام اور مسافروں کی سہولت کے لیے کچھ مکان اور رباط بنے ہوئے تھے جن میں راہ جاتے مسافر عارضی قیام کرتے تھے۔ ان سراؤں، مکانوں اور مسافر خانوں کا کوئی مالک نہیں ہوتا تھا اور نہ وہ کسی شخص کی ملکیت ہوتے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی آسانی کے لیے یہ آیت نازل فرمائی جس کے عموم سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو عمارتیں کسی خاص شخص یا قوم کی ذاتی ملکیت نہ ہوں، اور وہاں عام لوگوں کو آنے جانے کی ممانعت نہ ہو، اور وہاں
Flag Counter