Maktaba Wahhabi

314 - 421
(رجل دعته امرأة ذات منصب و جمال، فقال: اني اخاف اللّٰه) "وہ (بھی اللہ کے عرش کے سایہ میں ہو گا) جس کو ایک حسین و جمیل اور صاحب حسب و نسل عورت بلائے اور وہ کہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں (میں تمہارے پاس نہیں آؤں گا)" (فیض القدیر مناوی: 4/88، رقم: 4645) ان سب آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام نے عورت اور مرد میں نیک اعمال میں مساوات رکھی ہے۔ (سورۃ النساء: 114) یعنی عمل صالح پر جیسا مردوں کو اجر ملتا ہے ایسا ہی عورتوں کو اجر ملے گا، اور برے اعمال پر جیسا مردوں کو گناہ ہوتا ہے ویسا ہی گناہ عورتوں کو ہو گا۔ (مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ) (سورۃ النساء: 123) اور اسلام میں نان و نفقہ اور اپنے بچوں کی ضروریات زندگی پوری کرنے کا مکلّف مرد کو بنایا گیا ہے نہ کہ عورتوں کو۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (كفيٰ بالمرءِ اثماً أن يضيع من يعول) (ابوداؤد، رقم: 1692، مستدرک حاکم: 1/415، مسند احمد: 2/160) "آدمی کے گناہ گار ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ جن کی روزی کا ذمہ دار ہے ان کے حقوق کو ضائع کر دے۔" موجودہ زمانہ میں جو عورت اور مرد کی مساوات کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے وہ غیر فطری مساوات ہے۔ مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی فیکٹریوں اور دفتروں میں کام کرنے پر زور دیا جا رہا ہے اور اس کو مردوزن کی مساوات کا نام دیا جا رہا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عورت گھر سے نکلی تھی مردوں کے شانہ بشانہ ہر شعبہ زندگی میں کام کرنے اور ان کے ساتھ برابری کرنے کے لئے لیکن وہ نہ گھر کی رہی اور نہ باہر کی۔ گھر سے نکلی تو گھر بگڑا۔ گھر بگڑنے سے پورا معاشرہ بگڑا اور معاشرہ بگڑنے سے پوری قوم بگڑی، اور قوم میں زنا،
Flag Counter