Maktaba Wahhabi

360 - 421
الْمِسْكِينِ ﴿١٨﴾ وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَّمًّا ﴿١٩﴾ وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا ﴿٢٠﴾)(فجر:17۔20) "ہر گز ایسا نہیں،بلکہ تم یتیم کی قدر اورتکریم نہیں کرتے اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتے ہو،اور تم میراث کا سارا مال سمیٹ کر چٹ کرجاتے ہو اور تم لوگ مال سے بہت محبت کرتے ہو۔" ان آیات میں کفار کی یتیموں کی حق تلفی پر مذمت کی گئی۔اس سے معلوم ہوا کہ یتیموں کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام ضروری ہے،اور صرف حق کی ادائیگی کافی نہیں ان کااکرام و احترام بھی واجب ہے۔اللہ تعالیٰ نے جو مال عطا فرمایا ہے عقل اور انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے شکریہ میں یتیموں اور محتاجوں کی پرورش کی جائے اور ان کو ذلت وحقارت کی نظر سے نہ دیکھا جائے۔اپنے بچوں کے مقابلہ میں یتیموں کو ذلیل وحقیر نہ سمجھیں۔یہ بھی ان کے اکرام میں داخل ہے۔لیکن کفار مکہ یتیم کا اکرام تو کیا کرتے ان کا حق واجب بھی نہ دیتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں آکر یتیموں کے بارہ میں تمام اخلاقی برائیوں کو جو مکی سورتوں میں دی گئی تھیں،قانون کی صورت دے دی۔ان کو وراثت کا حق دلایا گیا،جاہلیت میں جو ان کے باپوں کا چھوڑا ہوا مال کھایا گیا تھا،واپس دلایا اور کہا گیا کہ اگر تم نے یتامیٰ کے مالوں کو اپنے مالوں کے ساتھ ملا کر کھالیا تو یہ ایک بہت بڑا گناہ ہے۔(نساء:) یتیم کی کفالت کرنے والے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت میں بلند درجات کی بشارت دی۔چنانچہ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (انا وكافل اليتيم في الجنة كها تين) ( بخاری:9/221، رقم:5310) "میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے۔ آپ نے اپنی درمیانی اور شہادت کی انگلی کو ملا کر بتایا۔" پھر یتیم کو اپنے ساتھ ملانے کی ترغیب دی،فرمایا: "جو مسلمان یتیم کو اپنے کھانے اور پینے میں ساتھ ملاتا ہے یہاں تک کہ وہ
Flag Counter