Maktaba Wahhabi

399 - 421
اور کسٹوڈین ہو،لہٰذا معاشرہ کے وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے کسی وجہ سے دولت کی نعمت سے محروم رکھا ہے،ان کا تمہارے مالوں میں حق رکھا گیا۔یہی اوپر کی دوآیات میں بیان کیا گیا ہے۔لہٰذا جس طرح نماز کا ادا کرنا تمہارے ذمہ ضروری ہے،اسی طرح ان لوگوں کا مالی حق بھی تمہارے ذمہ ضروری اور لازمی ہے۔ یہ بات مسلمانوں کے ذہنوں میں اس قدر راسخ ہوگئی تھی کہ اب ان کو اللہ کے راستہ میں خرچ کرنا بالکل گراں نہیں معلوم ہوتا تھا۔چنانچہ جب سورۃ الحدید کی یہ آیت نازل ہوئی: (مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ وَلَهُ أَجْرٌ كَرِيمٌ ﴿١١﴾)(الحدید:11) "کون ہے ایسا کہ قرض دے اللہ کو اچھی طرح،پھر وہ اس کو دوگناکر دے، اس کے واسطے،اور اس کو ملے ثواب عزت کا۔" تو اس پر سیدنا ابو الدحداح نے عرض کیا:"یارسول اللہ!صلی اللہ علیہ وسلم کیا اللہ ہم سے قرض چاہتا ہے؟"حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ہاں،ابو الدحداح''۔ انہوں نے کہا:"ذرا اپنا ہاتھ مجھے دکھائیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ ان کی طرف بڑھادیا۔ انہوں نے اپنے ہاتھ میں آپ کا ہاتھ لے کر کہا:"میں نے اپنے رب کو اپنا باغ قرض دےدیا۔"سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس باغ میں چھ سو درخت تھے۔اسی میں ان کا گھر تھا اور وہیں ان کے بچے رہتے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات کرکے وہ سیدھے گھر پہنچے اور باہر سے بیوی کو پکارکر کہا:"دحداح کی ماں!باہر نکل آؤ،میں نے یہ باغ اپنے رب کو قرض دےدیا ہے۔"وہ بولیں!"دحداح کے ابا!تم نے نفع کا سودا کیا،اور اسی وقت اپنا سامان اور بچے لے کر باغ سے نکل گئیں۔"(الاصابہ:7/58) زکوٰۃ کے مصارف اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں خود مقرر فرمائے۔(توبہ:/60) ان میں پہلے دو مصرف فقراء اور مساکین کے ہیں۔فقیر سے مراد وہ شخص ہے جو اپنی ضروریات زندگی میں دوسروں کی مدد کا محتاج ہو، خواہ جسمانی نقصان یا بڑھاپے کی وجہ سے، یہ محتاجگی مستقل ہو یا عارضی طور پر ہو،کوئی وقتی مدد کا محتاج ہو اور سہارا ملنے پر خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکتا ہو، جیسے یتیم بچے،بے سہارا بیوائیں اور بے روز گار لوگ مستحق زکوٰۃ
Flag Counter