Maktaba Wahhabi

51 - 421
کر دیتا ہے، اس لیے یہ کسی صورت اسلام میں جائز نہیں ہے۔ موجودہ دور کا نظریہ خاندانی منصوبہ بندی خالص الحاد پر مبنی ہے، اور اسلام میں اس کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس نظریہ کا مرکزی نقطہ اور محور یہ ہے کہ انسانی آبادی کے پھیلاؤ کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت محدود کر دیا جائے تاکہ وسائل معاش اور اسباب معیشت کی تنگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہ خالص خودغرضی پر مبنی فلسفہ ہے جس کی اساس یہ ہے کہ ہم اپنی آسائش کے لیے دوسرے انسانوں کا وجود برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ گویا یہ ایسا ہی ہے کہ جو لوگ زندگی کی ریل گاڑی پر سوار ہو چکے ہیں وہ ہاتھ ہلا ہلا کر کہہ رہے ہیں کہ دوسروں کو اس گاڑی پر سوار نہ ہونے دیں۔ دراصل ان لوگوں کو اپنے باپ اور ماں کو منصوبہ بندی کا مشورہ دینا چاہیے تھا تاکہ ان کے ناپاک وجود دنیا میں تشریف نہ لاتے اور لوگ ان کے ان ملحدانہ نظریات کو نہ سنتے اور نہ ان سے متاثر ہوتے۔ یہ قانون قدرت ہے کہ وسائل و اسباب سے برتر اور بالاتر رزق، مخلوق کی حقیقی منصوبہ بندی اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہے، البتہ یہ ضرور ہے کہ جب اور جہاں ظاہری طور پر جغرافیائی، موسمی یا سائنسی اور علمی اور فنی وجوہ کی بنا پر وسائل رزق انسانوں کے کسی گروہ یا کسی ملک یا قوم کے پاس ان کی ضرورت سے زیادہ مجتمع ہوئے تو بعض اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ انہوں نے اس سے مخلوق خدا کو فیض یاب کرنے کے بجائے لاکھوں ٹن غلہ سمندر میں بہا دیا یا اسے ضائع کر دینا زیادہ مناسب سمجھا۔ درحقیقت یہی وہ اقوام ہیں جو فلاح انسان اور انسان دوستی کے پرکشش نام پر زر کثیر صرف کر کے خاندانی منصوبہ بندی کی مہم کو پس ماندہ اقوام اور تیسری دنیا کے ممالک میں پھیلا رہی ہیں۔ حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ انسان کھانے کے لیے ایک منہ اور کمانے کے لیے دو ہاتھ لے کر پیدا ہوا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ روزی کے دروازے کبھی تم پر تنگ نہیں ہوں گے۔ اگر تم محنت اور مشقت کرو گے۔ فرمان خداوندی ہے: (وَمَن يَتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا ﴿٢﴾ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ) (طلاق: 2) "اور جس شخص کے دل میں خوف خدا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے
Flag Counter