Maktaba Wahhabi

78 - 421
ہوتی ہے اور باہمی تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوتی ہے، اس لیے شریعت نے اس کو بھی حرام اور ناجائز قرار دیا اور مسلمانوں کو سخت تاکید کی کہ وہ کسی کی غیبت نہ کریں۔ چنانچہ سورہ حجرات میں مسلمانوں کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا: "اے ایمان والو! مرد مردوں پر ٹھٹھا اور تمسخر نہ کریں کیونکہ شاید وہ بہتر ہوں ان (تمسخر اور ٹھٹھا کرنے والوں) سے، اور نہ ہی عورتیں دوسروں عورتوں پر ٹھٹھا کریں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس سے بہتر ہوں، اور نہ عیب لگاؤ ایک دوسرے کو، اور نہ ہی ایک دوسرے کو چڑانے کے لیے نام ڈالو کیونکہ ایمان کے بعد نرا نام گنہگار ہے، اور جو توبہ نہ کریں تو وہ لوگ ظالم ہیں۔ اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، بےشک بعض گمان گناہ ہیں اور (کسی کے عیبوں کی) جستجو نہ کرو اور ایک دوسرے کی غیبت (بھی) نہ کرو۔ کیا تم میں سے کسی کو یہ پسند ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔ پس تم کو گھن آتی ہے۔ اللہ سے ڈرتے رہو، بےشک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا مہربان ہے۔" (حجرات: 11۔12) ان آیات میں زبان کی دوسری برائیوں کے ساتھ غیبت کی برائی کو بھی بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ برائی دوسری تمام برائیوں سے بڑھ کر ہے کیونکہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا۔ اور ایک انسان تو مردہ جانور کا گوشت کھانے سے بھی سخت نفرت کرتا ہے چہ جائیکہ وہ اپنے بھائی کے گوشت کو کھائے۔ علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ ان دونوں آیات کی تفسیر میں فرماتے ہیں: "اختلاف و تفریق باہمی کے بڑھانے میں ان امور کو خصوصیت حاصل ہے۔ ایک فریق دوسرے فریق سے ایسے بدگمان ہو جاتا ہے کہ حسن قبول کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ مخالف کی کوئی بات ہو اس کا محل اپنے خلاف نکالتا ہے۔ اس کی بات میں ہزار احتمال بھلائی کے ہوں اور صرف ایک پہلو برائی کا نکلتا ہو، پھر بھی اس کی طبیعت برے پہلو کی طرف چلے گی اور اسی برے اور کمزور پہلو کو قطعی اور یقینی قرار دے کر فریق مخالف پر تہمتیں اور الزام لگانا شروع کر دے گا۔ پھر نہ صرف یہ کہ ایک بات حسب اتفاق پہنچ گئی، بدگمانی سے اس کو
Flag Counter