Maktaba Wahhabi

79 - 421
غلط معنی پہنا دئیے گئے، نہیں، اس جستجو میں رہتا ہے کہ دوسری طرف کے اندرونی بھید معلوم ہوں جس پر خوب حاشیے چڑھائیں اور اس کی غیبت سے اپنی مجلس گرم کریں۔ ان تمام خرافات سے قرآن حکیم منع کرتا ہے۔ اگر مسلمان اس پر عمل کریں تو جو اختلافات بدقسمتی سے پیش آ جاتے ہیں وہ اپنی حد سے آگے نہ بڑھیں اور ان کا ضرر محدود ہو جائے بلکہ چند روز میں نفسانی اختلافات کا نام و نشان باقی نہ رہے۔ "مسلمان بھائی کی غیبت کرنا ایسا گندہ اور گھناؤنا کام ہے جیسے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت نوچ نوچ کر کھائے۔ کیا اس کو کوئی انسان پسند کرے گا؟ بس سمجھ لو کہ غیبت اس سے بھی زیادہ شنیع حرکت ہے۔" (فوائد عثمانی: ص 686) انسانی گوشت کو صرف اس کی عزت و حرمت کے لیے حرام قرار دیا گیا ہے، اس لیے ہر وہ شے جو انسان کی عزت و حرمت کو مجروح کرتی ہے وہ بھی حرام ہے۔ غیبت سے چونکہ دوسرے انسان کی عزت و حرمت کو نقصان پہنچتا ہے اور دوسرے لوگوں کی نگاہوں سے وہ گر جاتا ہے اور لوگ اسے ذلیل و خوار سمجھنے لگتے ہیں، اس لیے اس کو مردہ بھائی کے گوشت کی طرح حرام قرار دیا گیا۔ بھائی سے چونکہ بہت محبت ہوتی ہے لہٰذا شدت محبت کی وجہ سے بہت سے لوگوں میں بھائی کی لاش کو دیکھنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی، اس لیے جو شخص مردہ بھائی کا گوشت نوچ کر کھاتا ہے اس سے بڑھ کر شقی القلب اور سنگ دل اور کون ہو سکتا ہے؟ جو اس محبت، لطف اور بھائی چارے کے منافی ہے جو اسلام ایک مسلم معاشرے میں انسانوں کے درمیان پیدا کرنا چاہتا ہے، لہٰذا غیبت کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دے کر اس کی نفرت دلوں میں قائم کی گئی۔ غیبت ہے کیا؟ علامہ ابن اثیر جزری نے اس کی تعریف یوں کی ہے: "غیبت یہ ہے کہ انسان کی پیٹھ پیچھے اس کی برائی کا ذکر کیا جائے بشرطیکہ وہ برائی اس میں موجود ہو۔ اور اگر تم اس برائی کا ذکر کرو جو اس میں موجود نہیں ہے تو یہ بہتان ہو گا۔" (نہایۃ لابن اثیر: 3/993)
Flag Counter