Maktaba Wahhabi

84 - 421
کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے عیوب کو (لوگوں پر) ظاہر کر دے گا، اور اللہ تعالیٰ جس کے عیوب کی ٹوہ میں لگ جائے اسے ذلیل و رسوا کر کے چھوڑے گا خواہ وہ گھر کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔ (طبرانی، معجم کبیر، رقم: 11444) اسلام نے کسی مسلمان کے بارے میں جھوٹ بولنے یا جھوٹی شہادت دینے کو بھی حرام قرار دیا کیونکہ اس سے بھی اس کی عزت و آبرو مجروح ہوتی ہے اور وہ معاشرہ میں بدنام ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہوں کی خبر نہ دوں؟" تین مرتبہ آپ نے ان کلمات کو فرمایا۔ ہم نے کہا: کیوں نہیں، یا رسول اللہ!" (ضرور بتلائیے) آپ نے فرمایا: "کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ پھر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا: "سنو! جھوٹی بات کہنا اور جھوٹی گواہی دینا۔" (یہ بھی بڑے گناہوں میں سے ہیں۔) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا! کاش آپ خاموش ہو جائیں۔ (بخاری: 10/342، 345، مسلم، باب الکبائر واکبرہا: 78) اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام یہ چاہتا ہے کہ ایک انسان کے اہل اور نسب دونوں کی پوری پوری حفاظت ہو کیونکہ اس کا بنیادی حق ہے، اس لیے اسلام نے زنا کو حرام قرار دیا اور اس کی سزا سو کوڑے اور رجم رکھی، لیکن یہ سزا چار گواہوں کی شہادت پر موقوف ہے جو چشم دید گواہ ہوں، اور اگر یہ ثابت ہو جائے کہ گواہ غلط گواہی دے رہے ہیں تو ان کو قذف کی سزا اَسی (80) کوڑے مارے جائیں گے، اور اس کی شہادت ہمیشہ کے لیے مجروع ہو جائے گی۔ اسی طرح اسلام نے ایک مومن کی عزت و آبرو کی حفاظت کی ہے اور اس کے لیے غیبت، چغل خوری، تجسس، تحسس، برے القاب سے یاد کرنا، اور اس کے عیوب و نقائص کی ٹوہ لگانا، اس کے متعلق بدگمانی کرنا، حسد کرنا، بغض رکھنا، اعراض برتنا، اس کی بیع پر بیع کرنا، سب و شتم کرنا، قتال اور جھگڑا کرنا، کذب بیانی اور بے حیائی اور لغو بات کرنا، لعن طعن کرنا، مذاق اڑانا، ان سب چیزوں کو حرام قرار دیا اور دنیا میں اس کی تعزیر رکھی اور آخرت کی سزا کی بھی بشارت دی۔ یہ سب کچھ ایک مومن کی
Flag Counter