Maktaba Wahhabi

111 - 406
پھر اس کے ساتھ ہی ضروری طور پر اس امت پر ان کی اتباع بھی واجب ہوجاتی ہے۔ بلکہ جنت حاصل کرنے کا یہی ایک رستہ ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’تم پر میری سنت اورمیرے بعد میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی اطاعت واجب ہے۔‘‘[1] ٭صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید کرنے والوں کے متعلق حضرت امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’بے شک ان لوگوں کا ارادہ یہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی پر طعن و تنقید کریں ۔ مگر ایسا کرنا ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ پھر انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید شروع کردی تاکہ یہ کہا جاسکے کہ : ’’اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اچھے آدمی ہوتے تو آپ کے ساتھی بھی اچھے لوگ ہوتے ۔‘‘[2] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر طعن کرنا درحقیقت دین پر طعنہ زنی کرنا ہے۔‘‘[3] امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’جب آپ کسی آدمی کو دیکھیں کہ وہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کررہا ہے تو اس بات کا یقین کر لیجیے کہ وہ زندیق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نزدیک قرآن بھی حق ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی حق ہیں اوربیشک یہ قرآن مجید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں ہم تک اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے پہنچی ہیں ۔ ان لوگوں کی خواہش یہ ہے کہ یہ ہمارے گواہوں کو مجروح کردیں تاکہ کتاب و سنت کو باطل ثابت کرنا ممکن ہوجائے۔ تو پھر خود ان لوگوں پر جرح کرنا زیادہ اولی ہے کہ یہ لوگ زندیق ہیں ۔‘‘[4] ٭اب اس سارے کلام کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے ہم کہتے ہیں کہ صحابہ کرام کی عدالت کا مطلب یہ نہیں کہ صحابی بحیثیت فرد گناہ سے معصوم ہیں ۔ بلکہ عصمت ان کے اجماع میں ہے۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جیسا کہ پہلے بھی گزر چکا ہے کہ’’ یہ امت گمراہی پر جمع نہیں ہوسکتی۔‘‘ پس عصمت ان کی اجتماعیت میں ہے۔ جب کہ فردی حیثیت میں غیر معصوم ہیں ۔
Flag Counter