Maktaba Wahhabi

292 - 406
صفدی نے بھی معتزلہ کے گمراہ کن عقائد شمار کرتے ہوئے ایسے ہی کہا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نسب کا شبہ: یہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا حقیقی نسب ہے، نہ کہ جیسے یہ جھوٹے لوگ اپنی طرف سے بہتان گھڑلاتے ہیں ۔ ۱۔آپ کا نام اور نسب عمر بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزی بن ریاح بن عبداللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوئی القریشی العدوی، ابو حفص، (کعب پر آپ کا شجرہ نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شجرہ نسب سے مل جاتا ہے) ۲۔آپ کی والدہ کا نام اور نسب حشمۃ بنت ہشام بن المغیرہ بن عبداللہ بن عمرو بن مخزوم، اور یہ بھی کہا گیا ہے، حنتمۃ بنت ہاشم ابن مغیرہ ۔پہلے نسب کے مطابق وہ ابو جہل کی بہن لگتی ہے، اور دوسرے کے مطابق اس کی چچازاد۔ ابو عمر نے کہا ہے: جس کسی نے اسے بنت ہشام بتایا ہے ، اس نے غلطی کی ہے۔ اگر ایسے ہوتا تو وہ ابو جہل کی اور حارث بن ہشام کی بہن لگتی۔ جبکہ ایسانہیں ہے۔ بلکہ یہ ان دونوں کی چچازاد ہے۔ اس لیے کہ ہاشم اور ہشام دونوں آپس میں بھائی ہیں ۔ ہاشم حنتمہ کا والد ہے جبکہ ہشام حارث اور ابو جہل کا والد ہے اور اس طرح یہ ابو جہل کی چچازاد بھی تھی۔ جیسا کہ پہلے ابو عمرو کا قول گزر چکاہے کہ ہاشم کی اولاد سے سلسلہ نسب نہیں چلا۔[1] حنتمہ کی ماں کا نام: شفابنت عبد قیس بن عدی بن سعد بن سہم بن عمرو بن ہصیص ہے۔ ہاشم بن مغیرہ کے بیٹے تو تھے مگر ان سے نسل نہیں چلی۔‘‘[2] ثالثا:.... خطاب کا نام اور نسب خطاب بن نفیل بن عبدالعزی بن ریاح بن عبداللہ.... اس کی والدہ کا نام: حیہ بنت جابر بن ابو جیب قہمی ہے۔ نفیل کے دوبیٹے تھے خطاب اور عبدنہم۔ اس دوسرے کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ اسے حرب فجار میں قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کی ماں کا نام حیۃ بن جابر بن ابی حبیب ہے ان کا ماں جایا بھائی زید بن عمر بن نفیل ہے۔‘‘ [3] یہ امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا صحیح نسب نامہ ہے مخالفین کی بکواس اور واہیات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عدالت میں شبہ: کہتے ہیں : بے شک ہم کثرت کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عدالت کے بارے میں سنتے چلے آئے
Flag Counter