Maktaba Wahhabi

293 - 406
ہیں ، حتی کہ اب اس کی ضرب الامثال بیان کی جاتی ہیں اور کہا گیاہے! تم نے عدل وانصاف کیا، اور عدل کی برکت سے زمین بھر دی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کھڑا دفن کیا گیا ہے، تاکہ اس کے مرنے کے ساتھ ہی ساتھ عدل بھی مرنہ جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عدل کے بارے میں کہنے کو جتنا کچھ کہا جائے، اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ۔ لیکن صحیح تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جب سن ۲۰ ہجری میں لوگوں کے وظائف مقرر کئے تو سنت نبوی کی اتباع کا اہتمام تو کیا، خیال تک بھی نہیں کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں کو برابر عطیات دیا کرتے تھے۔ کسی ایک کو دوسرے پر فضیلت نہ دیا کرتے تھے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنی مدت خلافت بھی اس کا اہتمام کیا۔ لیکن عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک نیا طریقہ ایجاد کیا، وہ سابقین کو دوسرے صحابہ پر اور مہاجرین قریش کو دوسرے مہاجرین پر، اور تمام مہاجرین کو تمام انصار پر اور تمام عرب کو عجم پر، آزاد کرنے والے کو آزاد کردہ پر، اور مضر کو ربیعہ پر ترجیح دیتے تھے۔ آپ نے مضر کے لیے تین سو وظیفہ مقررکیا، اور ربیعہ کے لیے دوسو اور اوس کو خزرج پر ترجیح دیتے۔ عقل مندوں سے سوال ہے کہ یہ تغافل کہاں سے لائے تھے؟ جواب:.... لاریب کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عطیات دینے میں فضیلت کے قائل تھے۔ اس میں کوئی عیب ولی بات نہیں ۔ اس لیے کہ عطیات میں مساوات کے واجب ہونے کی کوئی دلیل نہیں ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، آپ فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن مال غنیمت تقسیم کیا، گھوڑے سوار کو دو حصے، اور پید ل کو ایک حصہ دیا۔‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ نافع رحمہ اللہ نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب کسی آدمی کے ساتھ گھوڑا بھی ہوتا تو اس کو تین حصے ملتے اور اگر اس کے ساتھ گھوڑا نہ ہوتا تو اسے ایک حصہ ملتا۔‘‘ [1] اس فضیلت کو جائز کہنے والے کہتے ہیں : ’’ اصل چیز مساوات ہے، اور کبھی کبھار آپ فضیلت بھی دیا کرتے تھے جو کہ فضیلت کے جواز کی دلیل ہے۔ یہ قول صحیح ترین قول ہے، اصل مساوات ہے، لیکن کسی راجح مصلحت کی وجہ سے فضیلت دیناجائز ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کسی ذاتی محبت یا خواہش نفس کی وجہ سے فضیلت نہیں دی۔ بلکہ آپ کے ہاں اموال کی تقسیم دینی فضائل کی بنیاد پر ہوا کرتی تھی۔ آپ مہاجرین انصار میں سے سابقین اولین کو ترجیح دیتے تھے ۔ پھر ان کے بعد والے صحابہ کے ساتھ بھی ایسا ہی
Flag Counter