Maktaba Wahhabi

140 - 406
تب حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس معاملہ میں تکرار کرنے لگے۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت میں شک والی کوئی بات نہیں تھی اور نہ ہی آپ کو اس پر کوئی اعتراض تھا۔ لیکن جو بات پہلے سے آپ کو معلوم ہو چکی تھی، اس کی تفصیل جاننا چاہتے تھے کہ وہ مکہ میں داخل ہوں گے اور بیت اللہ کا طواف کریں گے۔ حق کے معاملہ میں اس شدت کے اختیار کرنے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ مجتہد تھے۔ نصرت دین کے بارے میں آپ کی قوت اور دین کے معاملہ میں آپ کی غیرت شک و شبہ سے بالاتر ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست راست اور تربیت یافتہ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مشورہ دینے اور اظہار رائے کرنے کا عادی بنایا ہوا تھا۔ یہ سب کچھ اس حکم الٰہی کی تعمیل میں تھا: ﴿ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ﴾ [آل عمران: ۱۵۹] ’’سو ان سے در گزر کر اور ان کے لیے بخشش کی دعا کر اور کام میں ان سے مشورہ کر۔‘‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ مشورہ لیتے اور ان کی آراء قبول فرماتے۔ اکثر معاملات میں ایسے ہی ہوتا تھا، اس کے ذکر کا یہ موقع نہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ چاہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی رائے قبول کرتے ہوئے کفار قریش سے جنگ و قتال کریں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اس سلسلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مراجعہ کیا۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھی مراجعہ کیا۔ جب دیکھا کہ یہ دونوں ہستیاں یک زبان اور متفق ہیں ، تو آپ بھی خاموش ہو گئے اور اپنی رائے ترک کر دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آپ کی صدق نیت اور سچائی کی وجہ سے آپ کا عذر قبول فرما لیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا حلق و نحر میں توقف کرنا حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلق و نحر کر لیا۔ تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی نافرمانی نہیں تھی۔ علمائے کرام نے اس کی کئی توجیہات ذکر کی ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ صحابہ نے توقف اس لیے کیا کہ انہیں احتمال تھا کہ شاید یہ حکم مندوب ہو۔ یا پھر اس صلح کو توڑنے کے لیے وحی نازل ہو جائے۔ یا یہ کہ یہ تخصیص صرف آپ کے لیے ہو اور باقی لوگ اس سال مکہ میں داخل ہوں اور عمرہ مکمل کر لیں ۔اور اس کی ایک علت یہ تھی کہ یہ زمانہ ایسا تھا جب نسخ کے احکام نازل ہورہے تھے۔ یا یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان کے خیال میں امر مطلب فوری اتباع کا تقاضا نہ کرتا ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ ساری باتیں موجود ہوں ۔‘‘[1] بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ آپ کی بات نہیں مانی جا رہی، تو آپ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے سامنے معاملہ بیان کیا، تو انہوں نے کہا:
Flag Counter