Maktaba Wahhabi

159 - 406
تمام لوگوں کو شامل ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان و علی اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم اس میں بدرجہ اولیٰ داخل ہیں ۔ اس کی تائید ایک بڑا نامور عالم علامہ طبرسی نے بھی کی ہے۔ وہ کہتا ہے: ’’اس بارے میں اختلاف ہے کہ اس آیت مبارکہ میں کن لوگوں کے اوصاف بیان ہوئے ہیں ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد حضرت ابوبکر اور ان کے وہ ساتھی ہیں جنہوں نے مرتدین سے جنگیں لڑیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد انصار ہیں اور یہ بھی کہ اس سے مراد اہل یمن ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد اہل فارس ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت علی اور ان کے ساتھی مراد ہیں ۔‘‘[1] اس بات کی دلیل کہ حضرات صحابہ اور ان میں سے خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم سب سے پہلے اس آیت کے عموم میں داخل ہیں ، وہ یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللّٰهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ ﴾ [المائدۃ:۵۴] ’’تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ عنقریب ایسے لوگ لائے گا کہ وہ ان سے محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے۔‘‘ یہ ایک کھلی ہوئی واضح دلیل اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی صفت لازمہ ہے۔ اس کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے: ﴿مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ﴾ [الفتح: ۲۹] ’’محمد اللہ کے رسول ہیں اورآپ کے ساتھی کافروں پر بہت سخت ہیں ، آپس میں نہایت رحم دل ہیں ۔‘‘ اور ارشاد ربانی ہے: ﴿يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ﴾[ المائدۃ: ۵۴] ’’اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت گرکی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔‘‘ یہ بات معلوم شدہ ہے کہ حضرات صحابہ سب سے پہلے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے تھے اور جو آیات اس کی تائید کرتی ہیں تدبر کرنے والے کے لیے ان سے قرآن بھرا ہوا ہے۔ یہ ان کی دائمی صفت ہے۔ کسی بھی عقل مند کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنی عقل سے کام لیتا ہو اور پھر یہ بھی کہے کہ اس آیت کی روشنی میں صحابہ مرتد ہو گئے تھے۔ اس لیے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانہ میں حضرات صحابہ نے
Flag Counter