Maktaba Wahhabi

169 - 406
نے انہیں مرحبا کہا اور آپ کی بیعت کی۔ امیر المومنین رضی اللہ عنہ آپ کے پاس بیٹھے رہے۔ ایک آدمی نے کہا: اے امیر المومنین! دروازے پر دو آدمی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکو برا بھلا کہہ رہے ہیں ؟ تو آپ نے قعقاع بن عمر رحمہ اللہ کو حکم دیا کہ ان میں سے ہر ایک کے کپڑے اتار کر اسے سو کوڑے لگائے جائیں اور جب آپ نے بصرہ سے خروج کا ارادہ کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس جو کچھ بن سکتا تھا زاد سفر، سواری وغیرہ کا بندوبست کیا اور جو لوگ لشکر میں سے بچ گئے تھے انہیں واپس جانے کی اجازت دی اور آپ کیساتھ چالیس خواتین اور آپ کے بھائی محمد بن ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی روانہ فرمایا۔ جس دن آپ نے بصرہ سے کوچ فرمایا اس دن حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور دروازہ کے پاس کجاوے کے قریب کھڑے ہو کر کو الوداع کہا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی الوداع کہا اور فرمایا: میرے بیٹے! لوگوں کو ایک دوسرے کی غیبت نہیں کرنی چاہیے بیشک میرے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان قدیم سے ویسے ہی تعلقات تھے، جیسے داماد کے ساتھ ہوتے ہیں ۔ بیشک آپ بہترین لوگوں میں سے ہیں ۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ نے سچ کہا: اللہ کی قسم! میرے اور آپ کے تعلقات ویسے ہی تھے۔ بیشک آپ دنیا اور آخرت میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں ۔[تاریخ الطبری: ۳؍۶۱۔] آپ ام المومنین رضی اللہ عنہاکو الوداع کہتے ہوئے کئی میل تک آپ کے ساتھ چلتے رہے اور ام المومنین رضی اللہ عنہاجب اس کے بعد اس واقعہ کو یاد کرتیں تو اتنا روتیں کہ آپ کا دوپٹہ آنسوؤں سے تر ہو جاتا۔ حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ کے اس حسن سلوک میں دلیل ان لوگوں کے خلاف ہے جو ام المومنین رضی اللہ عنہا سے بغض رکھتے ہیں اور آپ کو کافر کہتے ہیں اور حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہاکی ندامت اور گریہ و زاری اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اس معرکہ کی غبار سے بھی پاک ہو کر اس دنیا سے اپنے رب تعالیٰ کے پاس گئی ہیں اور آپ کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی نیت اچھی تھی۔ کئی علماء نے کہا ہے کہ آپ نے اجتہاد کیا اور اس میں غلطی کھائی۔ مجتہد خطا کار پر کوئی گناہ نہیں ہوتا، بلکہ اس کے لیے دو میں سے ایک اجر ہے۔ جب کہ حضرت طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کا انتقال بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت پر ہوا تھا۔ حکم نے ثور بن مجزاۃ سے نقل کیا ہے، وہ کہتا ہے: یوم جمل کے آخری وقت میں میرا گزر حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس سے ہوا، ان میں زندگی کی رمق باقی تھی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: امیر المومنین رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں میں سے ہوں ۔ آپ نے فرمایا: اپنا ہاتھ آگے بڑھاؤ میں بیعت کرتا ہوں ۔ میں نے ہاتھ آگے بڑھایا، انہوں نے بیعت کی اور فرمایا یہ علی رضی اللہ عنہ کی بیعت ہے اور ان کی روح پرواز
Flag Counter