Maktaba Wahhabi

199 - 406
نے اس کی علت بھی آپ سے بیان کر دی، تو آپ نے اپنی رائے کو ترک کر دیا۔ اس کے بعد نہ ہی آپ نے اور نہ ہی آپ کی اولاد میں سے کسی نے اس میراث کا مطالبہ کیا۔ پھر جب حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو آپ نے بھی وہی کچھ کیا جیسے حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کیا کرتے تھے۔ اس سے ذرا بھر بھی ادھر ادھر نہیں ہوئے۔‘‘ [1] امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اپنے والد محترم کی میراث طلب کرنا اس وقت تھا جب تک انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت کی حدیث نہیں سنی تھی۔ آپ بڑی سختی سے کتاب اللہ پر کاربند رہنے والی تھیں ۔جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو یہ حدیث بتائی تو وہ اپنے مطالبہ سے رک گئیں اور دوبارہ ایسی بات نہیں کہی۔‘‘ [2] اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے قول کی طرف رجوع کر لیا تھا۔ یہی عام صحابہ کا بھی مذہب تھا۔ ائمہ اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم توریث کے قائل ہیں اور دین میں یہی بات آپ کے علم اورمقام کے لائق تھی۔ رہ گیا یہ جملہ کہ حضرت فاطمہ نے ان سے قطع تعلقی کر لی اور ان سے بات نہیں کی، جیسا کہ روایت میں وارد ہوا ہے، امام ترمذی نے السنن (ح ۱۶۰۹) میں یہ واضح کیا ہے اور عمر بن ابی شبہ نے تاریخ المدینہ (۱؍۱۲۷) میں بیان کیا ہے، اس سے مقصود یہ ہے کہ حضرت فاطمہ نے میراث کے معاملہ پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے دوبارہ بات نہیں کی۔ ٭یہ بات ثابت ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے راضی ہو گئیں تھیں اور اسی رضامندی کی حالت میں ان کی وفات ہوئی۔ ابن المیثم البحرانی ایک بڑا شیعہ عالم کہتا ہے: ’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا تھا اور آپ کو وہی کچھ ملے گا جو آپ کے والد محترم لیا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فدک سے آپ لوگوں کا غلہ لیا کرتے تھے، باقی فی سبیل اللہ تقسیم کر دیتے اور اس میں سے اللہ کی راہ میں دیا کرتے تھے اور میں آپ سے اللہ کے ساتھ یہ عہد کرتا ہوں کہ میں اس مال میں ویسے ہی تصرف کروں گا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اس پر راضی ہو گئیں اور اس بات پر انہوں نے عہد لے لیا۔‘‘[3]
Flag Counter