Maktaba Wahhabi

231 - 406
جو کہ امارت، خطہ اور سلطان کے معنی میں آتا ہے۔ مولی مالک کوبھی کہتے ہیں اور غلام کو بھی۔ آزاد کردہ غلام کو بھی اور آزاد کرنے والے کو بھی۔ دوست اور بیٹے کو بھی۔ چچا کو اور مہمان کو بھی اور شریک کو بھی اور بھانجے کو بھی مولیٰ کہا جاتا ہے اور الولی رب، ناصر، منعم اور منعم علیہ، محب، تابع اور سسرالیوں کو کہا جاتا ہے۔‘‘[1] یہاں سے یہ معلوم ہوا کہ لفظ مولی، نصرت کے علاوہ دوسرے معنوں میں بھی آتا ہے، جیسا کہ سابقہ تفصیل سے معلوم ہوتا ہے۔ اب اس معنی کو صرف سلطان کے ساتھ خاص کرنا دلیل واضح کا محتاج ہے۔ مزید برآں یہ کہ مولی کو والی کے معنی پر محمول کرنا بہت مشکل ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اس کلام میں کوئی ایسی واضح چیز نہیں ہے جس سے معلوم ہوتاہو کہ اس سے مراد خلافت ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ مولی بھی ولی کی طرح ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ ﴾[المائدۃ: ۵۵] ’’تمھارے دوست تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے، وہ جو نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ جھکنے والے ہیں ۔‘‘ اور فرمان الٰہی ہے: ﴿ إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ﴾ [ التحریم:۴] ’’تم دونوں اگر اللہ کی طرف رجوع کرو توضرور تمہارے دل راہ سے کچھ ہٹ گئے ہیں اور اگر ان پر زور باندھوتو بیشک اللہ ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے، اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں ۔‘‘ پس اس سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مومنین کے ولی ہیں او مومنین آپ سے محبت کرنے والے، آپ کے تابعدار اور دوست ہیں ۔ جیسا کہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے ولی اور دوست ہیں اور اہل ایمان اللہ تعالیٰ کے محب ، تابعدار اور دوست ہیں اور اہل ایمان آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔ پس موالات معادات کی ضد ہے یعنی دوستی دشمنی کا الٹ ہے۔ یہ دونوں اطراف سے ہوتی ہے۔ بھلے ان میں سے ایک فریق قدر ومنزلت کے اعتبار سے بہت بڑا ہو اور اس کی طرف سے دوستی احسان اور مہربانی
Flag Counter